آنکھوں پر آہ یاس کا پردہ سا پڑ گیا
آنکھوں پر آہ یاس کا پردہ سا پڑ گیا
دنیا اجڑ گئی کہ مرا دل اجڑ گیا
اللہ کیسا تفرقہ مرنے سے پڑ گیا
میں ایک ساتھ سارے جہاں سے بچھڑ گیا
اب سوز دل کے ناز اٹھائے نہ جائیں گے
آنسو جہاں گرا وہیں ناسور پڑ گیا
مرنا پڑا کسے ترے ذوق گناہ سے
اے دل خبر بھی ہے کوئی غیرت سے گڑ گیا
آنکھوں میں اب تو اور بھی پھرتا ہے آشیاں
ہاں سن لیا بہار کا خیمہ اکھڑ گیا
وقت وداع دل پہ کچھ ایسی گزر گئی
اب تک خبر نہیں کہ میں کس سے بچھڑ گیا
وہ کون اور چیز ہے عاشق کا دل نہیں
جس دل میں بن کے نقش تمنا بگڑ گیا
قدرت نے ہاتھ چوم لئے اس کے وجد میں
جو نقش کائنات پر آئینہ جڑ گیا
دنیا کراہنے کی صدا بن کے رہ گئی
میں دل کو مرتے دیکھ کے آفت میں پڑ گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |