آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ

آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ
by انور دہلوی
303640آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھانور دہلوی

آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ
مطلب ادا وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

شوخی نگہ کے ساتھ تغافل جفا کے ساتھ
عشاق پر ہجوم بلا ہے بلا کے ساتھ

آخر ہوا نہ ضبط شب وصل مدعی
نالہ نکل گیا مری لب سے دعا کے ساتھ

تیرے ستم سے مجھ کو ملا منصب کلیم
اک وجہ گفتگو نکل آئی خدا کے ساتھ

تیرا حجاب اٹھتے ہی آیہ وہ ناگہاں
دشمن کے پاؤں کھل گئے بند قبا کے ساتھ

میں کیا کہ دشمنوں کی بھی قسمت الٹ گئی
ترچھی ادائیں اور تیری بانکی ادا کے ساتھ

راہ طلب میں شوق کی منظور ہے نمود
مٹتے قدم قدم پہ چلے رہنما کے ساتھ

یا رب غلط ہو فہم کج اندیش کا گماں
کچھ کہہ رہا ہے ان سے عدو التجا کے ساتھ

دیتے نہیں کسی کو پتہ اپنے حال کا
بیگانہ بن کے چلتے ہیں ہر آشنا کے ساتھ

مے بے طلب ملی تو ہوئی یار کی طلب
بندوں کے ناز بھی ہیں نرالے خدا کے ساتھ

جوش قلق میں دیکھیے کیا مانگتا ہوں میں
یاروں کے دم نکلتے ہیں میری دعا کے ساتھ

گھر سے مجھے نکالتے رہئے پر اس طرح
گہ مدعی کے ساتھ گہے مدعا کے ساتھ

کیوں شوق میں گرائیے ساتھ اپنے شان عشق
اغماض بھی ضرور ہے کچھ التجا کے ساتھ

کہتا ہوں یہ نصیب نہ دشمن کو ہو فراق
آ میں وہ کہتے جاتے ہیں میری دعا کے ساتھ

لیلیٰ کا نام زندہ ہے اب تک جہاں میں
تم بھی نباہ دو کسی اہل وفا کے ساتھ

پھرتے ہی اس کی آنکھ کے وابستہ تر ہوا
میں دل کے ساتھ دل نگہ فتنہ زا کے ساتھ

ہم عالم خیال میں کچھ بھی نہ خوش ہوئے
ہے رشک غیر یاد لب جاں فضا کے ساتھ

اب تو بڑا خیال تیری رنجشوں کا ہے
محشر میں دیکھ لیں گے خدا کی خدا کے ساتھ

کہتا ہے ڈر کے ہاتھ وفا سے اٹھا لیا
دشمن کی بات بن گئی میری دعا کے ساتھ

آتا ہے بوئے دوست میں کافر بسا ہوا
قاصد بھی اک رقیب ہے اپنا صبا کے ساتھ

کیا ڈھونڈھتے ہو دہر میں انورؔ جمال دوست
چندے پھرو چلو کسی مرد خدا کے ساتھ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.