آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے

آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
by محمد علی تشنہ

آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں

شمع ہے گل بھی ہے بلبل بھی ہے پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے سحر کچھ بھی نہیں

حشر کی دھوم ہے سب کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
فتنہ ہے اک تری ٹھوکر کا مگر کچھ بھی نہیں

نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش
سیر کرتا ہوں ادھر کی کہ جدھر کچھ بھی نہیں

لا مکاں میں بھی تو اک جلوہ نظر آتا ہے
بے کسی میں تو ادھر ہوں کہ جدھر کچھ بھی نہیں

ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہؔ
فائدہ رونے سے اب دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse