آٹھوں کا میلہ

آٹھوں کا میلہ
by رتن ناتھ سرشار
319348آٹھوں کا میلہرتن ناتھ سرشار

(انتخاب از فسانہ آزاد)

وہاں سے جو میاں آزاد تیر کی طرح رواں ہوئے تو راہ میں دیکھا کہ کئی مسافر لدے پھندے جا رہے ہیں۔ کیوں بھئی، اس وقت کہاں؟ لکھنؤ! لکھنؤ؟ یہ کیوں؟ کیوں کیا۔ آٹھوں کا میلہ ہے یا نہیں۔ اس دھوم دھڑکے کا میلہ دیکھا نہ سنا۔ ہاں تو اب ہم بھی چلتے ہیں۔ محرم الحرام اور بہار بسنت کے تو خوب مزے اڑائے، اب چلئے یہ میلہ بھی دیکھ لیں۔ کیا جانیں، پھر ہاتھی چھوٹے گھوڑا چھوٹے۔ یہ کہہ کرمیاں آزاد بھی لکھنؤ چلے۔ نور کے تڑکے داخل۔ سبحان اللہ کیا صبح ہے! عارفان حق پرست کے دل کی طرح نورانی اور باطن میں اہل تصوف کے مثل مہبط فیض ربانی۔ جدھر دیکھو تجلی اور نور۔ جدھر جاؤ لطف اور سرور۔ سلطان خاوری کے تاج زریں کی چمک اشعہ زرنگار سے ذروں کی جھلک نمودار۔ در و دیوار سے آیہ ’’و جلعنا الشمس ضیاء‘‘ آشکار۔ شنبہ کا دن جس کی شان میں فصحا نے کہا ہے (کہ مکتب خانہ ہا را روز بازار از دست و اطفال دبستان سبق آموز او الف ابجد زبانان ست و نقطہ اولیں پرکار دوراں۔)دیکھتے کیا ہیں کہ صبح ہی سے میلے کا رنگ جما ہے۔ نخل بہار کی نشو و نما ہے۔ غٹ کے غٹ، ٹھٹ کے ٹھٹ، شہدے لقے، ٹورے بچے، گرہ کٹ، جیب کترے، چرسیے، مدکیے، گنجرے، بھنگیرے، شریف و نجیب، زیرک و لبیب سب جوق جوق امنڈے آتے ہیں۔ تامدان، ہوادار، رہوار، باد رفتار، فینس زر نگار، ٹٹو گھوڑا سب خراماں خراماں پو قدمے آتے ہیں۔ بگھی پر بگھی ٹوٹی پرتی ہے۔ رنگیلوں چھیل چھبیلوں کی بن آئی۔ گاڑی بوٹی چڑھائی۔ بن ٹھن کے چھیلابن کے میلہ دیکھنے چلے۔ بالوں میں حنا کا تیل چھوڑے، کیچل لیٹ کا دھانی رومال اوڑھے، دو انگل مانگ کھولے، بانڈی سے پٹی جمائے گھڑی لگائے، داڑھی چڑھائے، گلے میں گلوبند دل فریب، شربتی کا انگرکھا تن کا زیب۔ پاؤں میں مخملی جوتی کاشانی سوتی، قہقہے اڑاتے آنکھیں لڑاتے جا رہے ہیں۔ ادھر ادھر نظارہ بازی کر کے مسکرا رہے ہیں۔ فینس پر ماہ روٹھسے سے بیٹھی ہیں مگر بند، ہٹو بچو کا شور بلند، ساقیوں کا بازار گرم۔کسی نے دوکش پئے ٹکا ہتھیایا، ساقیوں کی دکانیں دھواں دھار، تنبولیوں کے بیڑے مزیدار، کان میلے کی سرگوشی، حجام کی رونمائی، برف والے کی سرد مہری، سنکرنوں کی ہانک، آنب کے مجے کی کمرکھ ہیں۔ کابل کامیوہ، رس بھری، تاج گلابیاں، شہتوت، بوٹ لوہرے بھرے بوٹ۔ کسی طرف سرمہ مسی شیشہ کنگھی دیاسلائی کی ڈبیا ہے۔ بخشی بھولا ناتھ کا باغ میلے کا چشم و چراغ ہے۔ ٹکٹ رائے کا تالاب ہزاروں میں انتخاب لاکھوں کی لاجواب ہے جو سلسبیل کوثر کو شرمائے، تسنیم دیکھے تو پانی پانی ہو جائے، عجیب لطف و سماں ہے۔ ہزارہا تماشائی تالاب کے ارد گرد بستر جمائے کوئی دری، کوئی زین پوش بچھائے بیٹھا میلہ دیکھ رہا ہے۔ کوئی جہانیاں جہاں گشت چکر لگا رہا ہے۔ کوئی ہوا کھاتا ہے، کوئی فینس پر ایک جوان رعنا ڈھوہ کا ڈھوہ پچیس برس کا سن چلنے پھرنے کے دن لدا ہوا جا رہا ہے۔ کوئی ٹٹو کو ٹخ ٹخ کرتا آ رہا ہے۔امراء کے لڑکے زیور سے گوندنی کی طرح لدے مٹھائی خریدنے میں مصروف ہیں مگر خدمت گار دیکھ بھال رہا ہے کہ کوئی دست چالاک ہاتھوں ہاتھ پاؤں کے گھونگھرو نہ اڑا لے۔ عورتیں الگ زیور سے متجلی گھونگھٹ کاڑھے دبکی چلی جاتی ہیں کہ کوئی چوہے دتیاں نہ موس لے جائے۔ تخت رواں آتے ہیں۔ شعبدہ باز سوانگ لاتے ہیں۔ کوئی دہکتا انگارا کھا گیا۔ کوئی لوہے کے چنے کر کر کے چبا گیا۔ برہمن ڈول لئے گشت لگاتے ہیں۔ سقے اور بھشتی کٹورے کھنکھناتے ہیں۔ سہ پہر تک خوب جمگھٹا رہا۔ چراغ روشن ہوئے اور یار لوگ کھسکے۔ کسی نے مٹی کا ببوا لیا کسی نے روئی کا لنگور۔ اتنے میں ایک ریلا آیا تو کھلونے چکنا چور۔ ایک نے غل مچایا کہ وہ ہاتھی آیا۔ بھیڑ چھٹ گئی اور دراتے ہوئے چلے گئے مگر بڑے دل اپنی جگہ سے نہ ٹلے۔ شربتی کا انگرکھا چاہے ان گاؤ زوریوں میں چر سے نکل جائے مگر ممکن کیا کہ ہل جائے۔ اس بھیڑ۔بھاڑ میں پولس کا انتظام خوب رہا۔ چوٹٹے اچکے جاکر پچھتائے بھلے مانس مزے سے گھر آئے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.