آپ کا اعتبار کون کرے
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے
ہو جو اس چشم مست سے بے خود
پھر اسے ہوشیار کون کرے
تم تو ہو جان اک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے
آفت روزگار جب تم ہو
شکوۂ روزگار کون کرے
اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے
ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے
آنکھ ہے ترک زلف ہے صیاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے
وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے
داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |