آپ کو اس نے اب تراشا ہے
آپ کو اس نے اب تراشا ہے
قہر ہے ظلم ہے تماشا ہے
اس کو لیتے بغل میں ڈرتا ہوں
نازکی میں وہ شیشہ باشا ہے
کیوں کہوں اپنے سیم تن کا حال
گاہ تولہ ہے گاہ ماشا ہے
ترے کوچہ سے اٹھ نہیں سکتا
کس وفا کشتہ کا یہ لاشہ ہے
گر فرشتہ بھی ہو حسنؔ تو وہاں
گالی اور جھڑکی بے تحاشا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |