آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب
آرزو میرے دل کی بر آئے
سب کا پورا کرے خدا مطلب
کر نہ مجھ کو سبک رقیبوں میں
یوں ہنسی میں نہ تو اڑا مطلب
رک گئی بات تا زباں آ کر
دل کا دل ہی میں رہ گیا مطلب
ضد ہی ضد شیخ و برہمن کی تھی
ورنہ دونوں کا ایک تھا مطلب
میری اک بات میں ہیں سو پہلو
اور سب کا جدا جدا مطلب
غیر کی اور اس قدر تعریف
ہم سمجھتے ہیں آپ کا مطلب
اگلی باتوں کا ذکر جانے دو
آج اس تذکرے سے کیا مطلب
خوش ہو نافہم بھی سمجھ کے حفیظؔ
صاف ایسا ہو شعر کا مطلب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |