آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
آگے کچھ اس کے ذکر دل زار مت کرو
سب خیریت ہے اس سے کچھ اظہار مت کرو
جانے دو جو نصیب میں ہونا تھا سو ہوا
یارو خدا کے واسطے تکرار مت کرو
آئینہ لے کے پہلے تنک سج تو دیکھ لو
ملنے کا غیر کے ابھی انکار مت کرو
سر چڑھ رہا ہے کال یوں ہی عاشقوں کے یاں
پٹی سے تم یہ بال نمودار مت کرو
اے آہ و نالہ چھپ کے میں آیا ہوں اس جگہ
عالم کو شور کر کے خبردار مت کرو
اپنی بساط میں تو یہی جنس دل ہے یاں
گو اب پسند اس کو خریدار مت کرو
پیارے کمر کہاں ہے تمہارے یوں ہی بہ ظن
سن کر کسی سے جھوٹ پر اصرار مت کرو
قائمؔ وہ تب کہے تھا شب احوال خلق دیکھ
مجھ سا تو حق کسی کو طرحدار مت کرو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |