آگ لگا دی پہلے گلوں نے باغ میں وہ شادابی کی
آگ لگا دی پہلے گلوں نے باغ میں وہ شادابی کی
آئی خزاں گل زار میں جب گلبرگ سے گلخن تابی کی
کنج لحد میں مجھ کو سلا کے پوچھتے ہیں وہ لوگوں سے
نیند انہیں اب آ گئی کیوں کر کیا ہوئی جو بد خوابی کی
سوچ میں ہیں کچھ پاس نہیں کس طرح عدم تک پہنچیں گے
آ کے سفر درپیش ہوا ہے فکر ہے بے اسبابی کی
ابر ہے گریاں کس کے لیے ملبوس سیہ ہے کیوں اس کا
سوگ نشیں کس کا ہے فلک کیا وجہ عبائے آبی کی
زیر محل اس شوخ کے جا کے پاؤں جو ہم نے پھیلائے
شرم و حیا نے اٹھنے نہ دی چلمن جو چھٹی مہتابی کی
دل کا ٹھکانا کیا میں بتاؤں حال نہ اس کا کچھ پوچھو
دور کرو ہوگا وہ کہیں گلیوں میں اور سعی ہر بابی کی
دل نہ ہوا پہلے جو بسمل لوٹنے سے کیا مطلب تھا
دھوم تھی جب خوش باشیوں کی اب شہرت ہے بیتابی کی
شمعوں کا آخر حال یہ پہونچا صبر پڑا پروانوں کا
کوے اٹھا کے لے گئے دن کو پائی سزا سرتابی کی
غنچے خجل ہیں ذکر سے اس کے تنگ دہن ہے ایسا اس کا
نام ہوا عنقائے زمانہ دھوم اڑی نایابی کی
بجرے لگائے لوگوں نے لا کے ان کے بر آمد ہونے کو
اشکوں نے میرے راہ وفا میں آج تو وہ سیلابی کی
خط نہیں پڑتا میرے گلے پر تشنۂ حسرت مرتا ہوں
تیغ تری بے آب ہوئی تھیں آرزوئیں خوش آبی کی
رحم ہے لازم تجھ کو بھی گلچیں دل نہ دکھا تو بلبل کا
نکہت گل نے اس سے کشش کی تاب نہ تھی بیتابی کی
نزع میں یارب خندہ جبیں ہوں روح جو نکلے خوش نکلے
پیش نظر آئیں جو فرشتے صورت ہو اعرابی کی
کلغی کی جا پر تاج میں رکھ لے ذوق رہے پا بوسی کا
پائے اگر بلقیس کہیں تصویر تری گرگابی کی
پڑھ کے وظیفہ عشق کا اس کے تم جو تڑپ کے روتے ہو
روح نہ ہو تحلیل شرفؔ حسرت سے کسی وہابی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |