آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں

آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
by مظفر علی اسیر

آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں

بزم کی کثرت سے اندیشہ مرے دل میں نہیں
دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں

پنجۂ مژگان تر نے یہ اڑائیں دھجیاں
تار باقی ایک بھی دامان ساحل میں نہیں

خون ناحق کا ہمارے داغ مٹنے کا نہیں
تیغ میں ہوگا اگر دامان قاتل میں نہیں

پردہ دار چہرۂ یوسف نہیں ہے ہر نقاب
حسن لیلیٰ جلوہ گر ہر ایک محفل میں نہیں

نجد کا صحرا عجب صحرائے وحشت خیز ہے
قیس کیا لیلیٰ کو بھی آرام منزل میں نہیں

جس طرف جی چاہے گا میرا نکل جاؤں گا میں
سیکڑوں دروازے ہیں حلقے سلاسل میں نہیں

حد سے باہر پاؤں جو رکھتا ہے ہوتا ہے خراب
گھر میں جو راحت مسافر کو ہے منزل میں نہیں

ڈوبتے جاتے ہیں کیوں کر لوگ حیرت ہے مجھے
قد آدم آب بحر تیغ قاتل میں نہیں

ہو گیا دہشت سے ایسا بسملوں کا خون خشک
ایک بھی دھبا لہو کا تیغ قاتل میں نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse