آیا نہ راہ پر وہ ستم گر کسی طرح
آیا نہ راہ پر وہ ستم گر کسی طرح
سیدھا ہوا نہ اپنا مقدر کسی طرح
سر پھوڑیے کہ کھینچیے نالے فراق میں
ہوگا نہ وصل یار میسر کسی طرح
قاتل نے کوششیں تو ہزاروں ہی کیں مگر
نکلا نہ دم مرا تہ خنجر کسی طرح
بدلا لیں ان بتوں سے ستم کا تو خوب ہو
سن لے ہماری داور محشر کسی طرح
وحشت نے لاکھ لاکھ ابھارا ہمیں مگر
چھوڑا نہ ہم نے کوچۂ دلبر کسی طرح
منت بھی کی خوشامدیں بھی کیں ہزار بار
آیا نہ میرے گھر وہ ستم گر کسی طرح
شبنمؔ وہی ہے اس کی کچاوٹ ابھی تلک
بدلے نہ ہم نے یار کے تیور کسی طرح
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |