آیا ہے خیال بے وفائی

آیا ہے خیال بے وفائی
by نسیم دہلوی

آیا ہے خیال بے وفائی
کیوں جی وہی گفتگو پھر آئی

او بت نہ سنے گا کوئی میری
کیا تیری ہی ہو گئی خدائی

روکو روکو زبان روکو
دینے نہ لگو کہیں دہائی

صحرا میں ہوئی گہر فشانی
کام آئی مری برہنہ پائی

چاہا لیکن نہ بچ سکے ہم
آخر تیغ نگاہ کھائی

توڑا کانٹوں نے آبلوں کو
برباد ہوئی مری کمائی

بوسہ ہم آج مانگتے ہیں
کرتے ہیں قسمت آزمائی

توبہ شکنی شباب میں کر
کب تک اے جان پارسائی

کاٹا دن تو تڑپ تڑپ کر
آفت کی رات سر پر آئی

رخصت ہے نسیمؔ جلد دیکھو
کر لو گر ہو سکے بھلائی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse