آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
by شاہ مبارک آبرو

آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا

کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا

قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا

زاہد کے قد خم کوں مصور نے جب لکھا
تب کلک ہاتھ بیچ جو تھا سو عصا ہوا

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں
رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse