ابجی ڈ ڈو (1950)
by سعادت حسن منٹو
325209ابجی ڈ ڈو1950سعادت حسن منٹو

’’مجھے مت ستائیے۔۔۔ خدا کی قسم،میں آپ سے کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے۔‘‘

’’تم بہت ظلم کررہی ہو آج کل۔‘‘

’’ جی ہاں بہت ظلم کررہی ہوں۔‘‘

’’یہ تو کوئی جواب نہیں۔‘‘

’’میری طرف سے صاف جواب ہے اور یہ میں آپ سے کئی دفعہ کہہ چکی ہوں۔‘‘

’’آج میں کچھ نہیں سنوں گا۔‘‘

’’مجھے مت ستائیے۔ خدا کی قسم، میں آپ سے سچ کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے، میں چلانا شروع کردوں گی۔‘‘

’’آہستہ بولو۔ بچیاں جاگ پڑیں گی۔‘‘

’’آپ تو بچیوں کے ڈھیر لگانا چاہتے ہیں۔‘‘

’’تم ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتی ہو۔‘‘

’’آپ کو کچھ خیال تو ہونا چاہیے۔۔۔ میں تنگ آچکی ہوں۔‘‘

’’درست ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔‘‘

’’تمہیں میرا کچھ خیال نہیں۔۔۔ اصل میں اب تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔۔۔ آج سے آٹھ برس پہلے جو بات تھی وہ اب نہیں رہی۔۔۔ تمہیں اب میری ذات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’وہ کیا دن تھے جب ہماری شادی ہوئی تھی۔ تمہیں میری ہربات کا کتنا خیال رہتا تھا۔ ہم باہم کس قدر شیر و شکر تھے۔۔۔ مگر اب تم کبھی سونے کا بہانہ کردیتی ہو، کبھی تھکاوٹ کا عذر پیش کردیتی ہواور کبھی دونوں کان بند کرلیتی ہو۔ کچھ سنتی ہی نہیں۔‘‘

’’میں کچھ سننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

’’تم ظلم کی آخری حد تک پہنچ گئی ہو۔‘‘

’’مجھے سونے دیجیے۔‘‘

’’سو جائیے۔۔۔ مگر میں ساری رات کروٹیں بدلتا رہوں گا۔۔۔ آپ کی بلا سے!‘‘

’’آہستہ بولیے۔۔۔ ساتھ ہمسائے بھی ہیں۔‘‘

’’ہوا کریں۔‘‘

’’آپ کو تو کچھ خیال ہی نہیں۔۔۔ سنیں گے تو کیا کہیں گے؟‘‘

’’کہیں گے کہ اس غریب آدمی کو کیسی کڑی بیوی ملی ہے۔‘‘

’’اوہ ہو!‘‘

’’آہستہ بولو۔۔۔ دیکھو بچی جاگ پڑی۔‘‘

’’اللہ اللہ۔۔۔ اللہ جی اللہ۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ اللہ جی اللہ۔۔۔ سو جاؤ بیٹے سو جاؤ۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ اللہ جی اللہ۔۔۔ خدا کی قسم آپ بہت تنگ کرتے ہیں، دن بھر کی تھکی ماندی کو سونے تو دیجیے۔‘‘

’’اللہ، اللہ۔۔۔ اللہ جی، اللہ۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔۔ اللہ جی اللہ۔۔۔ تمہیں اچھی طرح سلانا بھی نہیں آتا۔۔۔‘‘

’’آپ کو تو آتا ہے نا۔۔۔ سارا دن آپ گھرمیں رہ کر یہی تو کرتے رہتے ہیں۔‘‘

’’بھئی میں سارا دن گھر میں کیسے رہ سکتا ہوں۔۔۔ جب فرصت ملتی ہے، آجاتا ہوں اور تمہارا ہاتھ بٹا دیتا ہوں۔‘‘

’’میرا ہاتھ بٹانے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں۔ آپ مہربانی کرکے گھر سے باہر اپنے دوستوں ہی کے ساتھ گل چھرے اڑایا کریں۔‘‘

’’گل چھرے؟‘‘

’’میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

’’اچھا دیکھو، میری ایک بات کا جواب دو۔۔۔‘‘

’’خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کیجیے۔‘‘

’’کمال ہے میں کہاں جاؤں؟‘‘

’’جہاں آپ کے سینگ سمائیں چلے جائیے۔‘‘

’’لو اب ہمارے سینگ بھی ہوگئے۔‘‘

’’آپ چپ نہیں کریں گے؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ میں آج بولتا ہی رہوں گا۔ خود سوؤں گا نہ تمہیں سونے دوں گا۔‘‘

’’سچ کہتی ہوں، میں پاگل ہو جاؤں گی۔۔۔ لوگو یہ کیسا آدمی ہے۔۔۔ کچھ سمجھتا ہی نہیں۔۔۔ بس ہر وقت۔ ہر وقت۔ ہر وقت۔۔۔‘‘

’’تم ضرور تمام بچیوں کو جگا کر رہو گی۔‘‘

’’نہ پیدا کی ہوتیں اتنی۔‘‘

’’پیدا کرنے والا میں تو نہیں ہوں۔۔۔ یہ تو اللہ کی دین ہے۔۔۔ اللہ، اللہ۔۔۔ اللہ جی، اللہ، اللہ۔۔۔ اللہ جی، اللہ۔‘‘

’’بچی کو اب میں نے جگایا تھا؟‘‘

’’مجھے افسوس ہے!‘‘

’’افسوس ہے، کہہ دیا۔۔۔ چلو چھٹی ہوئی۔۔۔ گلا پھاڑ پھاڑ کرچلائے چلے جا رہے ہیں۔ ہمسائیگی کا کچھ خیال ہی نہیں، لوگ کیا کہیں گے اس کی پروا ہی نہیں۔۔۔ خدا کی قسم میں عنقریب ہی دیوانی ہو جاؤں گی!‘‘

’’دیوانے ہوں تمہارے دشمن۔‘‘

’’میری جان کے دشمن تو آپ ہیں۔‘‘

’’تو خدا مجھے دیوانہ کرے۔‘‘

’’وہ تو آپ ہیں!‘‘

’’میں دیوانہ ہوں، مگر تمہارا۔‘‘

’’اب جونچلے نہ بگھاریئے۔‘‘

’’تم تو نہ یوں مانتی ہو نہ ووں۔‘‘

’’میں سونا چاہتی ہوں۔‘‘

’’سو جاؤ، میں پڑا بکواس کرتا رہوں گا۔‘‘

’’یہ بکواس کیا اشد ضروری ہے؟‘‘

’’ہے تو سہی۔۔۔ ذرا ادھر دیکھو۔۔۔‘‘

’’میں کہتی ہوں، مجھے تنگ نہ کیجیے۔ میں رو دوں گی۔‘‘

’’تمہارے دل میں اتنی نفرت کیوں پیدا ہوگئی۔۔۔ میری ساری زندگی تمہارے لیے ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تمہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہو تو بتا دو۔‘‘

’’آپ کی تین خطائیں یہ سامنے پلنگ پر پڑی ہیں۔‘‘

’’یہ تمہارے کوسنے کبھی ختم نہیں ہوں گے؟‘‘

’’آپ کی ہٹ کب ختم ہوگی؟‘‘

’’لو بابا میں تم سے کچھ نہیں کہتا۔ سو جاؤ۔۔۔ میں نیچے چلا جاتا ہوں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’جہنم میں۔‘‘

’’یہ کیا پاگل پن ہے۔۔۔ نیچے اتنے مچھر ہیں، پنکھا بھی نہیں۔۔۔ سچ کہتی ہوں، آپ بالکل پاگل ہیں۔۔۔ میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔‘‘

’’میں یہاں کیا کروں گا۔۔۔ مچھر ہیں پنکھا نہیں ہے، ٹھیک ہے۔ میں نے زندگی کے برے دن بھی گزارے بھی ہیں۔ تن آسان نہیں ہوں۔۔۔ سو جاؤں گا صوفے پر۔‘‘

’’سارا وقت جاگتے رہیں گے؟‘‘

’’ تمہاری بلا سے۔‘‘

’’میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔۔۔ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔‘‘

’’میں مر نہیں جاؤں گا۔۔۔ مجھے جانے دو۔‘‘

’’کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔۔۔! خبردار جو آپ گئے۔‘‘

’’مجھے یہاں نیند نہیں آئے گی۔‘‘

’’نہ آئے۔‘‘

’’ یہ عجیب منطق ہے۔۔۔ میں کوئی لڑجھگڑ کر تو نہیں جارہا۔‘‘

’’لڑائی جھگڑا کیا ابھی باقی ہے۔۔۔ خدا کی قسم آپ کبھی کبھی بالکل بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ اب یہ خبط سر میں سمایا ہے کہ میں نیچے گرمی اور مچھروں میں جا کر سوؤں گا۔۔۔ کوئی اور ہوتی تو پاگل ہو جاتی۔‘‘

’’تمہیں میرا بڑا خیال ہے۔۔۔‘‘

’’اچھا بابا نہیں ہے۔۔۔ آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘

’’اب سیدھے راستے پر آئی ہو۔‘‘

’’چلیے ہٹیے۔۔۔ میں کوئی راستہ واستہ نہیں جانتی۔ منہ دھوکے رکھیے اپنا۔‘‘

’’ منہ صبح دھویا جاتا ہے۔۔۔ لو،اب من جاؤ۔‘‘

’’توبہ!‘‘

’’ساڑی پر وہ بورڈر لگ کر آگیا؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’عجب الو کا پٹھا ہے درزی۔۔۔ کہہ رہا تھا آج ضرور پہنچا دے گا۔‘‘

’’لے کر آیا تھا، مگر میں نے واپس کردی۔۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ ایک دو جگہ جھول تھے۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ اچھا، میں نے کہا، کل ’’برسات‘‘ دیکھنے چلیں گے۔ میں نے پاس کا بندوبست کرلیا ہے۔‘‘

’’کتنے آدمیوں کا؟‘‘

’’دو کا۔۔۔ کیوں؟‘‘

’’باجی بھی جانا چاہتی تھیں۔‘‘

’’ہٹاؤ باجی کو، پہلے ہم دیکھیں گے پھر اس کو دکھا دیں گے۔۔۔ پہلے ہفتے میں پاس بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔۔۔ چاندنی رات میں تمہارا بدن کتنا چمک رہا ہے۔‘‘

’’مجھے تو اس چاندنی سے نفرت ہے۔ کم بخت آنکھوں میں گھستی ہے۔ سونے نہیں دیتی۔‘‘

’’تمہیں تو بس ہر وقت سونے ہی کی پڑی رہتی ہے۔‘‘

’’ آپ کو بچیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑے تو پھر پتا چلے۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ ایک کے کپڑے بدلو، تو دوسری کے میلے ہو جاتے ہیں۔ ایک کو سلاؤ، دوسری جاگ پڑتی ہے، تیسری نعمت خانے کی غارت گری میں مصروف ہوتی ہے۔‘‘

’’دو نوکر گھر میں موجود ہیں۔‘‘

’’نوکر کچھ نہیں کرتے۔‘‘

’’تو انہیں نکال باہر کرو۔‘‘

’’آہستہ بولیے، دیکھیے، چھوٹی کیسے چونکی ہے۔‘‘

’’معاف کر دینا۔۔۔ ذرا ہاتھ سے تھپکا دو۔‘‘

’’منجھلی بھی تڑپ رہی ہے۔‘‘

’’پیشاب کرا دیا تھا اسے؟‘‘

’’جی ہاں! ‘‘

’’پھر کیا وجہ ہے؟‘‘

’’گرمی آج کچھ زیادہ ہے۔۔۔آپ پرے ہٹ جاییے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔نہیں۔آخر ہار مجھے ہی ماننی پڑتی ہے۔‘‘

’’تمہاری ہار،ہار نہیں ،جیت ہوتی ہے۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہےمجھے تم سے کتنی محبت ہے۔‘‘

’’اپنی محبت آپ اسی وقت جتایا کرتے ہیں۔‘‘

’’لوبھئی، اور کیا سرِبازار تم سے محبت کیا کروں۔۔۔؟ادھر دیکھو میری طرف۔‘‘

’’آپ اپنی کرکے رہیں گے۔‘‘

’’میری جان جو ہوئیں تم۔‘‘

’’میں نے کہا۔۔۔ ہٹیے۔‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘

’’دیکھتے نہیں، بڑی اٹھ کر بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

’’اوہ! ‘‘

’’سنا نہیں آپ نے؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کہہ رہی ہے۔۔۔ ابجی ڈ ڈو۔‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ سنا ہے۔۔۔ دے لے ددھ۔‘‘

’’میں نیچے بھول آئی ہوں۔‘‘

’’نیچے؟‘‘

’’ہاں، نعمت خانے میں، جایئے، لے آئیے۔‘‘

’’لے آؤں، نیچے سے؟‘‘

’’جلدی جائیے رونا شروع کردےگی۔‘‘

’’جاتا ہوں۔‘‘

’’میں نے کہا، سنئے۔۔۔ آگ جلا کر ذرا کنکنا کرکیجیے گا دودھ۔‘‘

’’اچھا، اچھا۔۔۔ سن لیا ہے۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.