ابر  (1924) 
by محمد اقبال

اُٹھی پھر آج وہ پُورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہُوا پھر پہاڑ سربن کا

نہاں ہُوا جو رخِ مہر زیرِ دامنِ ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوارِ توسنِ ابر

گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا
عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا

چمن میں حکمِ نشاطِ مدام لائی ہے
قبائے گُل میں گُہر ٹانکنے کو آئی ہے

جو پھُول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اُٹھے
زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے، اُٹھے

ہوا کے زور سے اُبھرا، بڑھا، اُڑا بادل
اُٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل

عجیب خیمہ ہے کُہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھِرنے والوں کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse