اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکے

اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکے
by انور دہلوی
303639اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکےانور دہلوی

اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکے
خامہ سپرد کاتب تقدیر کر چکے

کہتے ہیں تم وصال کی تدبیر کر چکے
گویا ہمارے حق میں وہ تقدیر کر چکے

تدبیر کو حوالۂ تقدیر کر چکے
ہم بے زباں بھی یار سے تقریر کر چکے

دل خار خار خندۂ چشم اثر ہے اب
دل گرم صرف نالۂ شب گیر کر چکے

مرتا ہوں یوں کہ بستۂ فتراک کیوں نہیں
میں ہوں وہی کہ تم جسے نخچیر کر چکے

ہم جان کیوں نہ دیں دم گفتار بار بار
پر دیکھتے ہیں یہ کہ وہ تقریر کر چکے

باہر ہے ضبط شرم سے آشفتگی مری
تم بھی اسیر زلف گرہ گیر کر چکے

وقت پیام وصل وہ کہتے ہیں ہو چکا
شاید عدو سے وصل کی تحریر کر چکے

بس انتظار‌ صبح قیامت نہیں قبول
ہم اب تو عزم نالۂ شب گیر کر چکے

کچھ مزد رنج بازوئے قاتل نہیں کہ دل
نذر ادائے برش شمشیر کر چکے

کھلتا نہیں یہ عقدہ کہ ہو بیٹھے شاد کیوں
کس کو اسیر زلف گرہ گیر کر چکے

کہئے کہ شان عشق میں کیا ہو گئی کمی
گو آپ خوب سی مری تحقیر کر چکے

دل ہے یہاں دو نیم قصور تپش معاف
تم بھی نگاہ بزم کو شمشیر کر چکے

کھلتا ہے اور نالہ سرائی سے دل مرا
نالہ یہ بیں تو ان پہ بھی تاثیر کر چکے

صورت چھپائیے کسی صورت پرست سے
ہم دل میں نقش آپ کی تصویر کر چکے

دامن کشاں چلے ہیں مری خاک پر سے وہ
برباد کرنے کی مری تدبیر کر چکے

کچھ حشر خیزی شب غم انتظار مرگ
کچھ دور ظلم وقت کی تاخیر کر چکے

گوتم نے اس کو رکھ کے نظر میں گرا دیا
لیکن عدو کی عزت و توقیر کر چکے

تا چرخ ہیں اڑائے پھرے مجھ کو ضعف میں
نالے کہاں کہاں مجھے تشہیر کر چکے

ہے وہاں نگہ نگہ کو سر‌ دلبری مگر
دل کو میرے وہ قسمت صد تیر کر چکے

کہئے کہ زور‌ بازوئے میں کدھر گیا
سو بار غیر آپ کی تقصیر کر چکے

پہلے جبیں حوالۂ تقدیر کر چکے

دل مصر ہے کہ کارکنان قضا اے
سامان صد شکستیں تعمیر کر چکے

چن چن کے بے گنہ کو وہ لاتے ہیں زیر‌ تیغ
ہم جب سے اس امید پہ تقصیر کر چکے

آخر تو بعد اس کے ہے یاس سے امید
جو کچھ ہم اپنی آہ کی تاثیر کر چکے

اب کیا کہیں کہ قول وفا دے چکے انہیں
پہلے ہی قطع دامن تقریر کر چکے

اب کیا رہا لپیٹ میں دامن سے آپ کے
مٹی ہم اپنی آپ جو توقیر کر چکے

ہے چشم دجلہ باز تو کیا ہم کو چشم زیست
کاشانہ روئے آب پہ تعمیر کر چکے

کیوں التجائے قتل سے کیجیے انہیں ستنگ
جب وقت آ گیا تو وہ تاخیر کر چکے

ہم کس سے شکر و مدح قبول دعا کریں
لب قسمت شکایت تاثیر کر چکے

اب منہ سے بولتی کوئی تصویر آپ کی
جاں اپنی ہم حوالۂ تقدیر کر چکے

اس لب پہ امتحاں کے لئے مر مٹے ہیں ہم
جینے سے پہلے مرنے کی تدبیر کر چکے

ہوتا ہے وہ ہی یہاں کہ جو منظور ہے وہاں
انورؔ ہم آزمائش تقدیر کر چکے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.