اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
اب تو نے گل نہ گلستاں ہے یاد
اسی مکھڑے کی ہر زماں ہے یاد
ہم نشیں کہہ لے قصۂ مجنوں
ہم کو بھی دل کی داستاں ہے یاد
غنچہ کاٹے تھا جس کو دیکھ کے لب
کیوں صبا تجھ کو وہ وہاں ہے یاد
مستقل مرغ دل جو تڑپے ہے
کس کی سینے میں پرفشاں ہے یاد
سبق گریہ اشک کو کیا دوں
آپ ہی اس طفل کو رواں ہے یاد
گل سے کیا مختلط ہوں اے بلبل
مجھ کو وہ آفت خزاں ہے یاد
آہ اے چرخ پیر، قائمؔ نام
یاں جو رہتا تھا اک جواں ہے یاد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |