اب تک مرے احوال سے واں بے خبری ہے
اب تک مرے احوال سے واں بے خبری ہے
اے نالۂ جاں سوز یہ کیا بے اثری ہے
یاں تک تو رسا قوت بے بال و پری ہے
پہوچوں ہوں وہاں تیری جہاں جلوہ گری ہے
فولاد دلاں چھیریو زنہار نہ مجھ کو
چھانی مری جوں سلگ شراروں سے بھری ہے
ہو جاوے ہے اس کی صف مژگاں سے مقابل
اس دل کو مرے دیکھیو کیا بے جگری ہے
کس باغ سے آتی ہے بتا مجھ کو کہ پھر آج
کچھ اور ہی بو تجھ میں نسیم سحری ہے
تیرا ہی طلب گار ہے دل دونوں جہاں میں
نے حور کا جویا ہے نے مشتاق پری ہے
ہے اور ہی کچھ آب و ہوا شہر عدم کی
ہر شخص جو بیدارؔ ادھر کو سفری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |