اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور
ناصح کی حماقت تو ذرا دیکھیو یارو
سمجھا ہوں میں کچھ اور مجھے سمجھائے ہے کچھ اور
کیا دیدۂ خوں بار سے نسبت ہے کہ یہ ابر
برسائے ہے کچھ اور وہ برسائے کچھ اور
رونے دے، ہنسا مجھ کو نہ ہمدم کہ تجھے اب
کچھ اور ہی بھاتا ہے مجھے بھائے ہے کچھ اور
پیغام بر آیا ہے یہ اوسان گنوائے
پوچھوں ہوں میں کچھ اور مجھے بتلائے ہے کچھ اور
جرأتؔ کی طرح میرے حواس اب نہیں بر جا
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |