اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
او شوخ چشم پھونک دے برق نگاہ سے
کس شان سے چلا ہے مرا شہسوار حسن
فتنے پکارتے ہیں ذرا ہٹ کے راہ سے
جھپکی پلک تو برق فلک سے زمیں پہ تھی
سنبھلا نہ کوئی گر کے تمہاری نگاہ سے
دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر
اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے
میزاں کھڑی ہوئی مرے آگے نہ روز حشر
دبنا پڑا اسے مرے بار گناہ سے
دیکھو پھر ایسے دیکھنے والے نہ پاؤ گے
کیوں خاک میں ملاتے ہو نیچی نگاہ سے
آئینے آرسی تو فقط دیکھنے کے ہیں
دیکھو تم اپنے حسن کو میری نگاہ سے
کثرت سے مے جو پی ہے نظر ہے مآل پر
رعشہ نہیں ہے کانپ رہا ہوں گناہ سے
پایا بلند کیوں نہ ہمارا ہو اے جلیلؔ
پایا ہے فیض امیر سخن دستگاہ سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |