اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں

اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں
by میر طاہر علی طاہر فرخ آبادی

اب کیا ملیں حسینوں سے ہم گوشہ گیر ہیں
غارت گروں نے لوٹ لیا ہے فقیر ہیں

خالق بچائے زہرہ جبینوں کی چاہ سے
سنتے ہیں دو فرشتے ابھی تک اسیر ہیں

چار آنکھیں ہم نے کی تو ہیں غصہ نہ کیجیے
سائل نہیں فقیر نہیں راہگیر ہیں

در پر تمہارے بیٹھے ہیں سر پر ہے آفتاب
ہم خاکسار مالک تاج و سریر ہیں

وہ بھی تو روئیں اے اثر گریہ ایک دن
جن کی نگاہ میں مرے آنسو حقیر ہیں

کہہ دیں گے صاف صاف وہ دیکھیں تو آئنہ
یہ مانگ ہے لکیر ہم اس پر فقیر ہیں

نظروں سے کیا گرائیں گے طاہرؔ عدو مجھے
فضل خدا سے دست خدا دست گیر ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse