اتالیق بی بی/تیرھواں باب

باہر سے گھر آتے وقت ڈاکیے نے ایک رسالہ جو نمونے کے طور پر آیا تھا شوہر صاحب کو دیا۔ شوہر صاحب نے خاصہ نوش فرمایا، بیوی گھر کے کسی کام دھندے میں مصروف ہو گئیں۔ شوہر صاحب پلنگ پر لیٹ کر اخبار دیکھنے لگے یہاں تک کہ بیوی تشریف لائیں۔



نئی تہذیب ہوگی مشرقی پتلے صنم ہوں گے بہت نزدیک ہے وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے


یہ آج کس چیز کا مطالعہ ہو رہا ہے؟ کیا کوئی امتحان پاس کرنا ہے؟ جب امتحان کرنے کے دن تھے تب تو پاس نہ کیا، اب آموختہ پڑھنے سے فائدہ؟

“آموختہ واموختہ نہیں ایک اخبار نیا نکلا ہے، نمونہ کا پرچہ تھا۔ میں نے کہا لاؤ ذرا دیکھ لوں، ابھی رکھے دیتا ہوں اتنا پڑھ لوں”۔

اور اس کا نام کیا ہے؟

“نیا فیشن”۔

ہاں تو یہ کہو، یہی تو میں کہتی تھی کہ نیا فیشن آج کیسا نکلا ہے کہ سوتے وقت اخبار بینی ہو رہی ہے؟ کیوں صاحب تو اب یہ فیشن تو روز کا ہوا اور میں دن بھر کی تھکی ماندی سوؤں گی کیوں کر؟

“تم سو رہو میں ابھی ختم کیے دیتا ہوں، ایک ذرا یہ مضمون ختم ہو جائے”۔

مضمون گیا بھاڑ میں۔ میری بات سنو، تم جانتے ہو کہ مجھے تیز روشنی میں نیند نہیں آتی۔ اور بغیر تیز روشنی کے تم سے مضمون نہ پڑھا جا‎ئے گا۔ اگر تمھارا یہی دل چاہتا تھا کہ یہ کمبخت الگ سویا کرے تو ویسا ہی کہہ دیتے؟ ان چالوں سے کیا فائدہ؟ یہ تو میں جانتی ہی ہوں کہ تمھارا دل مجھ سے اکتا گیا ہے۔

“تم سے دل کیسے بھرے گا؟ میں ابھی ابھی رکھے دیتا ہوں، ذرا ٹھہر جاؤ”۔

ٹھہرے میری بلا (اخبار چھیننے میں آدھا ادھر اور آدھا ادھر)۔

“اے لو آخر نچ گیا نہ؟”

نچ گیا ہوگا جانے دو۔

اچھا تو لمپ کم کردوں؟

“کر دو”۔

تو تم ہی ہاتھ بڑھا کے کم کردو گے تم کیا حرج ہوگا۔۔۔۔۔۔؟ اے لو خفا ہو گئے، تمھیں ہمارے سر کی قسم بتاؤ خفا ہوگئے؟

“نہیں پیاری میں خفا نہیں ہوا”۔

اچھا تو تمھارا دل چاہتا ہی ہے تو دیکھو میں منع نہیں کرتی۔

“منع اور کیوں کر کرتیں؟ کیا آنکھیں پھوڑ دیتیں؟”

نوج۔ ایسی باتیں نہ کیا کرو، لمپ تیز کر لو میں اب کچھ نہ بولوں گی۔

“لمپ تیز کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ اب تو وہ تم نے پھاڑ ہی ڈالا؟”

میں نے تو نہیں پھاڑ ڈالا۔ میں نے اخبار لینا چاہا، تم نے اس زور سے پکڑا کہ نگوڑا کپڑا بھی ہوتا تو ٹکڑے ہوجاتا، کاغذ کی کیا بساط تھی؟ اچھا تو نہ پڑھو تو یہ توبتاؤ کہ اس میں لکھا کیا تھا؟

“کچھ نہیں ایسی ہی ویسی باتیں تھیں”۔

تو دیکھتے کاہے کو تھے؟

“یونہی دیکھتا تھا”۔

خوب ایسی ہی ویسی باتیں تھیں، یونہی دیکھتے تھے، یہ آخر پردہ داری کیوں ہے؟ کیا یہ بھی موا فرامشن ہوگیا؟ بولو میں پوچھتی ہوں اس میں کیا لکھا ہے؟

“ہوگا بھئی کسی بارے میں، اب چپ چاپ پڑ بھی رہنے دوگی کہ کہیں اور جا کے پڑ رہوں؟”

تو یہ ناحق کا غصہ کیوں کرتے ہو؟ میں ہی نہ علاحدہ جا کے مر رہوں؟ تم کاہے کو اٹھوگے؟ ادھر میں کئی دن سے دیکھ رہی ہوں کہ تمھاری طبیعت بدلی ہوئی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر رنج کرتے ہو، ہنسی کی بات بھی ہو تو تم منہ پھلا لیتے ہو۔ یہ آخر کیا بات ہے؟ ابھی اس دن بھی باتوں ہی باتوں میں تم رنج کر بیٹھے، آج بھی وہی ہوا۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ کیا یہی نیا فیشن ہے؟

“نہیں کوئی بات نہیں، یونہی کام وغیرہ آج کل زیادہ ہے”۔

اچھا تو جانے دو، اب ذرا اپنے نئے فیشن کے اخبار کو تو سناؤ، آخر اس کے اغراض کیا ہیں؟

“اغراض اس کے یہی ہیں کہ چونکہ زمانے کا رنگ بدل گیا ہے لہذا وضع قطع تراش خراش نئی نئی ہونی چاہیے، اسی طرح کی باتیں ہیں”۔

یہ عورتوں کے کپڑوں سے اخبار کو کیا واسطہ؟ جو یہ موا ہم کو سکھانے آیا ہے۔ یہ ہوتا کون ہے ہمارے کپڑوں کا ذکر چھاپنے والا؟ اور واہ رے عزت مردوں کی کہ اپنی عورتیں یوں بکھانی جاتی ہیں اور تم لوگ ہنس ہنس کے پڑھ رہے ہو؟ خوشی خوشی اخبار خریدا جاتا ہے، ماں بہنوں کے چھوٹے کپڑوں، بڑے پائنچوں کا پردہ فاش کیا جاتا ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں۔ واہ کیا عزت نئے فیشن کی ہے؟ اور کیا لکھا ہے؟

“اور یہ لکھا ہے کہ برقع پہن کر اگر عورتیں باہر نکلا کریں تو بہت بہتر بات ہے، علم کو ترقی ہوگی، تعلیم زیادہ پھیلے گی”۔ تعلیم کسبیوں کے یہاں ہوتی ہے۔ شریفوں کے یہاں تو سنا نہیں کہ استاد جی نوکر ہو‎ئے ہوں۔ اب جو نہ ہو تھوڑا ہے، شرم ہی سے سب کچھ ہے۔ جب تم لوگوں نے وہی بھون کھائی تو سب کچھ ہی ہوگا۔ اور اللہ کی مار اس اخبار والے مو‎ئے پر جو ایسی باتیں چھاپ چھاپ کر سب کے پاس بھیجتا ہے۔

“بھیجتا کاہے کو ہے؟ لوگ منگواتے ہیں”۔

وہ کون لوگ ہیں جو منگواتے ہیں؟

“میں تم سب ہی خریدتے ہیں”۔

تم ایسے خریدتے ہوں گے؟ میں تو لاکھ برس نہ منگواؤں اور تم کو بھی نہ منگوانے دوں گی۔

“کیوں؟ آخر اس میں کیا حرج ہے؟”

اے لو ابھی سے نیا فیشن بدل گیا؟ ایک ہی دن کی اخبار بینی میں یہ کایا پلٹ ہو گئی۔ کہتے ہیں کیا حرج ہے؟ اگر اس میں حرج نہیں تو حرج ہے کاہے میں؟ ایک دن میں یہ ہوا ہے تو میں جانتی ہوں کچھ دنوں پڑھ کر مجھ سے کہو گے کہ مونڈھا بچھا کے بیٹھو۔ لے اب اخبار رہے اس گھر میں یا میں ہی رہوں۔ میرے سر پر ہاتھ رکھو کہ آج سے یہ موذی اخبار خدائی خوار کی صورت نہ دیکھوں گا تو میں گھر میں رہوں گی، نہیں تو کچھ کھا کے سو رہوں گی۔ آبرو پر سے جان قربان کی ہے، جب اسی کے لالے پڑ گئے تو زندگی پر تین حرف ہیں۔

“آبرو جانا کیسا۔ ترکی میں۔۔۔۔۔۔”

ترکی رومی تو میں جانتی نہیں، سیدھی سادھی بات جانتی ہوں کہ جب تم نے یہ کہا کہ باہر نکلنے میں حرج ہی کیا ہے تو آبرو رہی کہ گئی؟ یا تو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا‎ؤ، نہیں مجھ سے نہ رہا جائے گا۔ میں عورت ذات بے بس چیز، تم اپنے اخبار کے جوش میں کسی دن یار دوستوں کو اندر بلالو تو میں تو کہیں کی نہ رہی، نہ میکے میں منہ دکھانے کے قابل رہوں گی نہ سسرال میں۔

ناظرین! آخر وعدہ ہی کرتے بنی کہ میں خود اس اخبار ناہنجار سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھوں گا اور جو شخص اس سے واسطہ رکھے گا اس سے اور اس کے واسطے والوں سے مجھ سے آج یا کسی وقت کوئی سروکار نہ ہوگا (پرچہ کلب کے پتہ سے جاری ہوگا)۔