اتالیق بی بی/ساتواں باب

ایک دوست کے آجانے کی وجہ سے شوہر صاحب کو میزبانی میں دیر ہوگئی اور دوست صاحب قریب ایک بجے کے واپس گئے۔



لطف قلیان دھواں دھار وپان و لب سرخ تا دم صبح ترا کار بہ شب دوش ایں بود


ابھی کاہے کو آئے؟ کون ضرورت تھی آنے کی؟ مرغے کی آواز سن لیتے تو اٹھتے، یہ تم سویرے کیوں چلے آئے؟

“بھئی کیا کریں وہ مرد آدمی اٹھے ہی نہ، اور تم نے اور ہی غضب کیا کہ کوئلے قفل میں بند کر دیے، بغیر انگیٹھی کے سارا بدن ٹھٹھر کے رہ گیا”۔

تو یہ کہو، ابھی بیٹھنے کا ارادہ سلامتی سے تھا۔ وہ تو کہو انگیٹھی نہ تھی نہیں تو دراصل صبح ہی کرکے اٹھتے۔ تب کی مرتبہ بھی تو یہی ہوا تھا، اسی مارے تو میں نے آج یہ ترکیب کی تھی اور ایمان کی بات یہ ہے کہ آنے والے بیچارے کا کیا قصور۔ وہ پرائے گھر کا حال کیا جانے؟ عقل تو گھر والے کو ہونی چاہیے کہ جو ادھر بھول پڑا، صاحب کھانا کھاتے جائیے۔ یہ تو سوچتے کہ بی بی بچوں والا گھر ہے، لاؤ ذرا پوچھ تو لیں کہ کھانا ہے بھی یا نہیں۔ مگر نہیں، وہیں سے بیٹھے بیٹھے حکم لگ رہا ہے کہ تین کھانے لاؤ، چار کھانے لا‎ؤ۔

“پھر میں کیا کرتا؟ جو دروازے پر آجائے کیسے کہہ دوں کہ چلے جاؤ؟”

یہ کاہے کو کہو؟ کھانے کا ذکر ہی کیوں کیا؟ تھوڑی دیر میں چلا ہی جاتا۔

“لاحول و لاقو‍‌ۃ الا باللہ، یہ تو مجھ سے کبھی نہ ہوسکے گا”۔

یہ نہ ہو سکے گا تو یہ بھی جان لو کہ اتنے خرچ میں یہ روز کی دعوتیں مجھ سے بھی نہ ہو سکیں گی۔ یہ زبردستی تو دیکھو کہ دیں گے تو اتنا ہی، چاہے جتنے آدمی آویں۔ دیکھو ابھی کروٹ نہ بدلو، میری پوری بات سن لو۔ آدمی جو کام کرتا ہے، نتیجہ سوچ لیتا ہے۔ ان روز کی ضیافتوں میں گھر رہا کہ گیا؟ اور پھر یہ تو سوچو کہ جتنے کھانے والے جمع ہوتے ہیں ایک بھی تو ایسا نہیں کہ تم کو ایک وقت بھی کھلادے، ایسے کھلانے سے فائدہ کہ جو نہ دین کا نہ دنیا کا؟ میں تو تمھارے دوست ملاقاتیوں کو خوب جانتی ہوں، اپنا رکھ پرایا چکھ کے سوا کچھ نہیں، ادھر کھانے کا وقت آیا ادھر جمع ہونے لگے۔ سلام کیا ایسے یار دوستوں کو۔ اب میں کھانے کا وقت ہی بدل دوں گی، اذان ہولے گی تب آگ جلاؤں گی، آپ ہی کھانا دس بجے رات کو تیار ہوگا، تب تو ان موؤں سے نجات ملے گی۔

“تم تو دنیا بھر کی برائی ہی کیا کرتی ہو۔ اگر کسی نے ایک وقت ہمارے یہاں کھانا کھا لیا تو کیا برا کیا؟ دوستی ملاقات میں یہ ہوتا ہی ہے”۔

اچھا ہوتا ہی ہے، تم نے تو یہ کہہ کر چھٹی پالی۔ اس کے دل سے پوچھو جس کو خانہ داری کرنی پڑتی ہے۔ لے آج ہی دیکھو، جمعرات تھی، میں نے کہا لا‎‎ؤ مرغ پکوا لوں۔ ابھی ہانڈی اتری بھی نہیں کہ حکم نادری آگیا، دو کھانے بھیجو۔ لیجیے صاحب جس راہ آیا اسی راہ گیا، بچے منہ دیکھ کر رہ گئے، مجھ سے قسم لے لو جو مجھ نگوڑی نے شوربا تک آنکھ سے دیکھا ہو۔ لے میں دوسرے وقت بھی اسی میں کرتی اور تمھارے واسطے آدھا سینہ صبح کو بھی رکھ چھوڑتی۔ مگر جب تمھارے مارے چلنے بھی پاوے؟ اور یہ تو یہی ہے، تم تو رکھی رکھائی چیز بھی منگوا بھیجتے ہو۔ یہ میں کہتی ہوں کہ اگر کہیں سے دو پیڑے آگئے تو اس میں تمھارا کیا اجارہ ہے جو وہ بھی منگوا بھیجتے ہو؟

“اور تم بھیج بھی دیتی ہو؟”

کاہے کو بھیج دیتی؟ کون تھا جس کے لیے بھیج دیتی؟ بچوں کے لیے نہ رکھتی، ان کے دوستوں کو بھیج دیتی۔ میں نے جن کو پیٹ سے پیدا کیا ہے ان کے لیے رکھ چھوڑتی ہوں، تم نے جن کو پیدا کیا ہے ان کے لیے بازار سے کیوں نہیں منگاتے؟ اور میرے نہ بھیجنے سے کیا ہوا؟ آج ہی جب میں نے پیڑے نہیں بھیجے تو کھویا بازار سے آیا۔

“بھئی اب برائے خدا پڑ رہنے دو، تم نے تو ناک میں دم کر دیا ہے”۔

تو تم سو کیوں نہیں رہتے؟ منع کون کرتا ہے، میری تقدیر میں جاگنا بدا ہے جاگوں گی۔ اتنی دیر تو مجھے جگا رکھا اور جب نیند اچٹ گئی تو آپ اپنی کروٹ لے کرخراٹے لینے لگے۔

“تم کو کس بھکوے نے کہا تھا کہ جاگو؟ تم سو کیوں نہ رہیں؟”

میں سو رہتی تو بن پرتی تمھاری، نعمت خانہ سے لڑکوں کی باسی الماری سے اچار مٹھائی سب ہی کچھ نکال کے مو‎ئے مہمان کے سامنے لگا دیا جاتا۔ میں ایسی ننھی نادان تھی کہ سو رہتی تمھارے اوپر سب کچھ چھوڑ کے؟ اور ذرا مہمان صاحب کا پیٹ تو دیکھنا، جلندھر ہوگا موئے کو۔ پورا مرغا چٹ کر گیا اور ڈکار نہ لی۔ جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں کہتی ہوں مرغا ہڑپ کرکے ڈکار تک نہ لی؟ اے بولتے کیوں نہیں؟

“بولوں کیا؟ تم نے تو جان عذاب میں کردی ہے، اللہ مجھ کو موت دے یا تم مرو تو یہ قصہ تمام ہو”۔

یہ تو جانتے ہی ہو کہ مانگنے سے نہیں آتی، آتی ہوتی اور مانگتے تو جانتی۔ اور میری موت کو کیا؟ میں تمھارے ہاتھوں یونہی زندہ درگور ہوں، مجھے تو تم نے ایسا کر دیا ہے کہ خدا دشمن کو بھی نہ کرے۔ اور یہ تو کہو یہ شکر کیوں مانگ بھیجی تھی؟ اتنے وقت شکر کا کیا کام تھا؟

“چائے کے لیے مانگی تھی اور کاہے کے لیے؟ اب سو‎ؤگی بھی؟”

یہ گیارہ بجے رات کو چائے کا کون موقع تھا؟ اور میں بسکٹ نیچے بھول کے چلی آئی تھی وہ تو نہیں کھلا دیے؟ لیجیے چھٹی ہوئی۔ وہ بھی گئے، وہ تو ضد ہے مجھ سے۔ جس بات کو جانیں گے کہ میرے خلاف ہوگی اد بدا کے وہی کریں گے۔ آج ہی میں نے بسکٹ لیے تھے، اب آٹھ روز بسکٹ کھانا تو معلوم ہوگا۔ اور یہ بچے بھی خالی چائے پی کر مدرسہ جائیں گے، اس کا عذاب بھی تمھاری گردن پر یا اس مو‎‎ئے پر جس کو تم نے زہر مار کرایا۔ خدا کرے سنکھیا ہی ہو کے لگے، پھر کھانا نصیب نہ ہو۔

اس کے بعد میاں غصہ میں اٹھ کر الگ پڑ رہے اور نیند میں اکثر الفاظ مثل مرغی کا مرغا، جمال گوٹہ، دسترخوان کی مکھی سنتے رہے یہانتک کہ غافل ہو گئے اور خواب میں دیکھا کہ ایک دیونی ہے جوگرم گرم چائے کی ایک بڑی سی پیالی میں مجھ کو غوطہ دے رہی ہے۔