اتالیق بی بی/نواں باب

“شوہر صاحب کو دراصل دیر ہوگئی ہے، بیوی نے غصہ میں دروازہ بند کر لیا۔ پانی بہت برس رہا تھا، شوہر صاحب اچھی طرح شرابور ہو لیے تو دروازہ کھولا۔ شوہرصاحب کا غصہ، بیوی کا جواب ترکی بہ ترکی۔”



بیوی کنوڑیا کھولو رس کی بوندیں پڑیں


“لاحول ولا قوۃ، یعنی سنا کیں اور دروازہ نہ کھولا، یہ کیا مذاق تھا؟”

مذاق کیسا؟ مذاق دل لگی میں نہیں کرتی اور مذاق دل لگی جو کرتے ہیں ان کو بھی میں جانتی ہوں۔ کیا میری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں جو تم سمجھتے ہو کہ یہ باتیں میں نہیں دیکھتی، مگر مجھ سے مطلب؟ جو جی چاہے کر لو۔

“فضول بیکار بک بک مت لگاؤ، یہ بتاؤ کہ تم نے دروازہ کیوں نہیں کھولا؟”

دروازہ کھولتی میری بلا! میں یونہی دن بھر مرتی کھپتی ہوں۔ اب رات کو بھی آرام نہ کروں؟ اور ان کے لیے مسٹ مارے بیٹھی رہوں۔

“اچھا خیر، میں کہے دیتا ہوں کہ اگر اب کی مرتبہ ایسا ہوا تو بس دیکھ لینا”۔

دیکھ کیا لیں گے؟ کیا دکھا دوگے؟ کیا ماروگے؟ اس کا خیال بھی نہ لانا دل میں، تم نے ہاتھ اٹھایا اور نہ نکل پڑوں دن دہاڑے باہر تب ہی کہنا، اب جڑ سے کٹ جا‎ئے‎ گی، یہ غرّے ڈبے کسی اور کو دکھلانا۔

“اچھا ان فضول باتوں سے کیا فا‌ئدہ؟ کل سے کھڑکی میں باہر سے قفل لگا کر کنجی اپنے پاس رکھا کروں گا اور اندر سے کنڈی ہی نکلوا ڈالوں گا۔ کل ہی صبح بڑھئی نہ لگاؤں تو سہی”۔

یہ بھی کر کے دیکھ لو، میں ابھی اپنے میکے نہ چلی جا‎ؤں تو سہی، لگاؤ تو تم کنڈی۔ یہ دیکھیے صاحب، اب بی بی بچے قید فرنگ میں رکھے جائیں گے کہ جب میاں آئیں تو دروازہ کھلے، نہیں ڈھابلی بند۔ ایسا ظلم تو میں نے آج تک سنا نہیں۔ گھر کے کاروبار کے لیے دروازہ کھلا نہ رہے گا، تو یہ کہو اب پڑوسنوں کو جو آنا ہوگا وہ مردانے سے ہو کر آیا کریں گی۔ ایک تو یونہی کوئی تمھارے گھر میں جھانک کے نہیں دیکھتا تھا، اب تو اور بھی کوئی اس طرف نہ تھوکے گا۔ ایسے کبھی کبھی آدمی کی صورت بھی دیکھنے کو مل جاتی تھی اب تو اس کو بھی جی ترسے گا۔

گھرمیں آگ لگے، سانپ نکلے، کوئی آفت آئے یا دن دوپہر سڑک پر نکل کھڑی ہو، نہیں توگھٹ گھٹ کر مرو۔

میں ابھی سے کہے دیتی ہوں، صبح ہی میں اپنے میکے چلی جاؤں گی۔ اپنے بچے لو، اپنا گھر سنبھالو، مجھ سے کو‏‏ئی واسطہ نہیں، چاہے اس میں آگ لگے چاہے جو ہو۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ میاں باہر کے مالک، گھر کے اندر بی بی ہوئی تو وہ مالک۔ یہ تو آج تک نہیں دیکھا کہ کوئی اپنی سہرے جلووں کی بی بی کو مرغی کی طرح ڈھابلی میں بند کرے۔ یہ کوئی اور ہوں گی اس طرح داد بے داد اٹھانے والیاں، مجھ سے اس کی برداشت کہاں؟ جی چاہتا ہے پانی پی کر کوسوں ان موؤں کو جنھوں نے مجھے اس طرح بھاڑ میں جھونک دیا۔

“خوب کوسنے دو، ہم خوش ہمارا خدا خوش”۔

جب جی چاہے گا دیں گے، کچھ تمھارے کہنے سے دیں گے؟ یہ تو میں جانتی ہوں کہ تم ہمارے لوگوں کے خون کے پیاسے ہو، نہ معلوم انھوں نے تمھارا کیا بگاڑ رکھا ہے جو اس طرح جانی دشمن ہوگئے؟ نہ تمھارے لینے میں نہ دینے میں، مگر ناحق کو خار کھاتے ہیں ان کے نام سے۔ کبھی جو اماں بچوں کے دیکھنے کو چلی آتی ہیں دن بھر ناک بھویں چڑھی رہتی ہیں۔ تمھارا ایسا سسرال والوں کا دشمن تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ مجھی سے پھرے پھرے معلوم ہوتے ہو، اسی وجہ سے یہ سسرال والے بھی نہیں دیکھے جاتے۔ ذرا سی دیر ہو گئی دروازہ کھلنے میں اس کے اوپر یہ آفت۔ شام سے دم مارنےکی فرصت نہیں۔ جو ذرا دھندے سے چھٹی ملے تو آرام کیسے کروں؟ میاں کے انتظار میں در سے لگی کھڑی رہو تو خوش، نہیں چیتھڑوں سے بیزار۔ اسی جاگنے نے تو مجھے بیمار ڈال دیا۔ ایک دن کا ہو تو کوئی کہے، روز کا یہی قرینہ ٹھہرا۔ کوئی ایسی ہی منحوس رات ہوتی ہوگی جو ایک بجے کے ادھر آتے ہوگے اور پھر جاگو تو جاگو نہیں یہ خفگی انگیز کرو۔ یہ مزاج داری تو میں بادشاہ کی بھی نہ کروں، تم بیچارے کون کھیت کی مولی ہو؟ اپنا آرام اپنی آسائش کھو بیٹھے ان کے لیے اور یہ انعام ملا کہ چاہے بیمار ہو چاہے حیران ہو دروازہ کھلنے میں دیر کیسے لگے؟ آج مہینہ بھر سے ساری رات کھانستے گذرتی ہے، اتنا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیسی ہو؟ ابھی ذرا سی انگلی اپنی دکھتی ہو تو حکیم بھی ہوتے، ڈاکٹر بھی، پُوِلٹس بھی، ہائے ہائے بھی۔ کیا کچھ نہ ہوتا؟ مگر سچ ہے کوئی اپنا نہیں، سب اپنا آرام چاہتے ہیں۔

“میں نے کھانسی وانسی نہیں سنی، کھانسی ہوتی تو میں بھی تو کبھی سنتا؟”

تم کاہے کو سنتے؟ تمھاری بلا کو کیا غرض تھی کہ تم سنتے؟ اور پھر تم سنتے تو نہیں نہیں کرکے دو ایک پیسے “رب السوس” ملٹھی میں خرچ ہی کرنے پڑتے، یہاں جان پر بھی بن جائے تو تم یوں ہی انجان بنے رہو گے۔ یہی تو امید ہے مجھے تم سے، تم سوچتے ہوگے کہ مر ہی جائے کہیں کمبخت، کال کٹے ہے، اب تمھاری دعا پوری ہی ہوگی، میں بہت تھوڑی جیوں گی۔ ایک میں یونہی دو ہڈی کی آدمی تھی اور دوسرے برا نہ ماننا، تمھارے برتاؤ نے اور بھی مجھ کو مار اتارا، خیر یاد کرو گے جب مر جاؤں گی۔ جب دوسری آئے گی تو میری قدر ہوگی ابھی نہیں۔ کسی چیز میں میرا سا برتا‎ؤ اس کے ساتھ کرکے دیکھنا، نہ کھانا پانی حرام کردے تب ہی کہنا۔ ہاں ہاں میں جانتی ہوں تم ہنس رہے ہو، خوش ہو رہے ہو۔

“اے لو تم نے کیسے جانا کہ میں ہنس رہا تھا؟”

اے چرپائی کے ہلنے سے، منہ کی جنبش سے اور کیسے جانا؟ خیر خوش ہو، منت مانو کہ گھی کے چراغ جلائیں گے جو یہ مرجائے گی، میرا بھی جی سیر ہو گیا ہے۔ اب مالک اٹھا ہی لے تو بہتر ہے اس طرح کے جینے سے۔

“خدا نہ کرے کہ اٹھالے، یہ آخر تم اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگیں؟”

اس طرح کی باتوں پر موقوف نہیں، اب میرا جی بھی بھر گیا ہے۔ تمھاری طرف سے ایسی بے پروا‏ئی ہونے لگی کہ جیسے محبت ہی اٹھ گئی۔ تمھیں یاد کرو ایک زمانہ وہ تھا کہ جو میں تھی وہ کوئی اور نہیں اور وہی اب ہوں کہ مجھ سے تم پھٹکے ہی پھٹکے رہتے ہو۔ کہیں کلب گھر ہے، کہیں فرامشن ہے، یار ہیں، دوست ہیں۔ اور مجھ کو بڑی فکر اس بات کی ہے کہ تمھارا تو یہ حال ٹھہرا، میرے بعد ان بچوں کی خبر کون لے گا؟ محلے والے ترس کھا کر منہ دھلا دیں گے، کرتی اوڑھنی کی پھونک سی دیں گے۔ اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتے ہیں؟ رہا کھانا، اس کی فکر لینے والا اللہ ہے۔ اول تو گھر میں چیز بست کیا ہے؟ اور جو تھوڑی بہت ہے بھی وہ محمد حسین اور ان کے ہوتے سوتوں کے نیگ لگے گی۔ یہ بچے معصوم بیچارے بھیک مانگیں گے، مگر اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے دوسرا بیاہ کیا تو ان بچوں کے خیال سے میری پیٹھ قبرمیں نہ لگے گی، تم ان کو پڑھوا لکھوا کے بیاہ شادی کرکے پروان چڑھا دینا، پھر جو جی چاہے کرنا۔ نہ میں ہوں گی نہ منع کروں گی۔

شوہر صاحب کا بیان ہے کہ الحمد للہ خلاف امید آج وہ خود سو گئیں اور لکچر تمام ہو گیا۔ گو کہ کھڑکی میں باہری زنجیر کا ارادہ مصمم تھا مگر “ارادۃ اللہ غالب علی ارادۃ الناس”، نہ لگا سکے۔