اتالیق بی بی/چھٹا باب

“شوہر صاحب کو گیارہ بجے رات کو ایک دوست کی ضمانت کرنے کو جانا پڑا ہے، واپسی بہت دیر کو ہوئی۔ اس فعل ناپسندیدہ پر رائے زنی۔”



دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست در پریشاں حالی و در ماندگی


یہ تو میں جانتی ہی تھی، ان لوگوں سے دوستی کرکے اور کیا ہوتا؟ یہ تو میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا جب تم نے فرح بخش کلب گھر کھڑا کیا تھا۔ لے بھلا سوچو تو تین پہر بجے ضمانت کرنے جانا پڑا۔ اور ان شہدوں سے مل کر کیا ہوگا؟ یہی دن رات کی جھوٹی گواہی، جھوٹا قران، ضمانت، مُچلکہ اور اس کے سوا ہونا ہی کیا ہے؟ اور ضمانت کرنا تو کوئی بات نہیں،جب وہ موا بھاگ جائے گا اور تم کو ضمانت کا روپیہ دینا پڑے گا تو معلوم ہوگا، ابھی تو کچھ نہیں۔ جب موا محمد حسین تم کو کسی کام کا نہ رکھے گا تب تمھاری آنکھ کھلے گی، ابھی تو اس کے برابر کوئی نہیں، بی بی بچے اس کے اوپر سے صدقے اتارے جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے، اسی طرح تلنگا دو بجے رات کو کنڈی کھڑکایا کرے تو ٹھیک ہے۔ آپ ہی پڑوسی سوچیں گے کہ کیا ہے جو یہ رات کو دیکھنے آیا کرتا ہے کہ گھر میں ہیں یا نہیں۔ اور ناک کو دیکھو جاڑے سے کیسی لال ہو گئی ہے؟ جیسے کسی نے پڑیا مل دی ہے۔ یہی سزا تمھاری، اب صبح زکام نہ ہو تو میں ناک ہارتی ہوں۔ بخار بھی چڑھے گا۔ کیا کیا نہ ہوگا؟ میں ابھی سے کہے دیتی ہوں یخنی اور مونگ کا چونگا مجھ سے نہ کہنا۔ میرے کیے نہ ہو سکے گا۔ جس کی ضمانت کی ہے اسی کی امان میں تم کو سونپتی ہوں، بیماری حیرانی میں اب مجھ سے امید نہ رکھنا۔ حاکم نے بھی سوچا ہوگا کہ ضمانت کرنے والا بھی اسی گروہ کا ہوگا، نہیں تو بدمعاش کی ضمانت کرنے کیوں آتا؟

“پھر میں کیا کرتا؟ ایک دوست عزیز اپنا پھنستا تھا، میں نے کہا لا‎ؤ میں ہی ضمانت کر لوں”۔

کیسا دوست؟ وہی تو دوست جو بری راہ لگادے، یہ عزیزداری کب سے ہو گئی؟ یہ خون کب سے مل گیا؟ عزیزوں کے معاملہ میں تو خون سفید ہو گیا اور یہ محمد حسین موئے ایسوں سے کیسے خون مل گیا؟

”محمد حسین کا بھلا کیا ذکر ہے؟ ان سے کیا مطلب؟ میں نے تم سے کب کہا کہ محمد حسین کا معاملہ تھا؟”

تم نے نہیں کہا، میں تو جانتی ہوں؟ اور کون ایسا چور اچکا گرہ کٹ سوائے اس مونڈی کاٹے کے ہے؟ اب بہلانے سے کیا فائدہ؟ بتادو ہے نا وہی؟

“نہیں، وہ نہیں ہے، محمد حسین نہیں ہے”۔

میں تو کہتی ہوں کہ سب جھوٹ۔ تم نہ معلوم کہاں رہے ہو اور نہ معلوم کس کام کے لیے گئے ہو، اور اب مجھ سے باتیں بناتے ہو۔ بولو؟

“کیا بولوں، تم تو ناطقہ بند کیے ہو، پوری بات نہیں کہنے دیتیں، اور شکایتوں کی بوچھار کر دیتی ہو، محمد شفیع کی نوکری کی ضمانت کرنے گیا تھا؟”

کون محمد شفیع؟ منجھلے بھائی؟ لے بھلا مجھ کو کیا معلوم تھا؟

شوہر صاحب فرماتے ہیں کہ ہزار ہزار شکر، اس کے بعد لڑکوں کی اماں نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور میں سلام ھي حتی مطلع الفجر پڑھتا ہوا سو گیا۔