اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار کہ تو
کم ثباتی مری ہر دم ہے مخاطب بہ حباب
دیکھیں تو پہلے ہم اس بحر سے ہوں پار کہ تو
ناتوانی مری گلشن میں یہ ہی بحثے ہے
دیکھیں اے نکہت گل ہم ہیں سبک بار کہ تو
دوستی کر کے جو دشمن ہوا تو جرأتؔ کا
بے وفا وہ ہے پھر اے شوخ ستم گار کہ تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |