اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں

اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
by اسماعیل میرٹھی
297585اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیںاسماعیل میرٹھی

اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
آگے حواس گم خرد نارسا کے ہیں

ممنون برگ گل ہیں نہ شرمندۂ صبا
ہم بلبل اور ہی چمن دل کشا کے ہیں

کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنون قیس
وادیٔ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں

بنیان عمر سست ہے اور منعمان دہر
مغرور اپنے کو شک عالی بنا کے ہیں

اپنے وجود کا ابھی عقدہ کھلا نہیں
مصروف حل و عقد میں ارض و سما کے ہیں

شیخ اور برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو
دونوں شکار غمزہ اسی دل ربا کے ہیں

جن کو عنایت ازلی سے ہے چشم داشت
وہ معتقد دعا کے نہ قائل دوا کے ہیں

لایا نہیں ہنوز نوید‌ وصال دوست
ہم شکوہ سنج سستی‌‌ پیک سبا کے ہیں

سمجھو اگر تو ہیں وہی سب سے حریص تر
طالب خدا سے جو دل بے مدعا کے ہیں

ان بد‌ دلوں نے عشق کو بد نام کر دیا
جو مرتکب شکایت‌ جور و جفا کے ہیں

ہمت ہمائے اوج سعادت ہے مرد کو
الو ہیں وہ جو شیفتہ ظل ہما کے ہیں

ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اسی آب و ہوا کے ہیں

جو باندھتے ہیں طرۂ طرار کا خیال
ناداں امیدوار نزول بلا کے ہیں

کھٹکا بھی کچھ ہوا نہیں اور دل اڑا لیا
یہ سارے ہتکھنڈے تری زلف دوتا کے ہیں

صید کرشمہ اس لئے ہوتے نہیں کہ ہم
پہلے سے زخم خوردہ فریب وفا کے ہیں

مارا بھی اور مار کے زندہ بھی کر دیا
یہ شعبدے تو شوخیٔ ناز و ادا کے ہیں

خلوت میں بھی روا نہیں گستاخیٔ نگاہ
پردے پڑے ہوئے ابھی شرم و حیا کے ہیں

یوں کہہ رہی ہے نرگس بیمار کی ادا
نسخے تو مجھ کو یاد ہزاروں شفا کے ہیں

اب تک ہے سجدہ گاہ عزیزان روزگار
جس خاک پر نشان ترے کفش پا کے ہیں

اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا
مجھ کو تو نا پسند وتیرے صبا کے ہیں

سیر ورود قافلۂ نو بہار دیکھ
برپا خیام اوج ہوا میں گھٹا کے ہیں

جاتا ہے خاک‌ پاک دکن کو یہ ریختہ
واں قدردان اس گہر بے بہا کے ہیں

احباب کا کرم ہے اگر نکتہ چیں نہ ہوں
ورنہ ہم آپ معترف اپنی خطا کے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.