اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں

اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
by مصطفٰی خان شیفتہ

اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
یعنی مجھ پر کرم یار کی افواہیں ہیں

شرم اے نالۂ دل خانۂ اغیار میں بھی
جوش افغان عزا بار کی افواہیں ہیں

کب کیا دل پہ مرے پند و نصیحت نے اثر
ناصح بیہودہ گفتار کی افواہیں ہیں

جنس دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن
یہ یونہی کوچہ و بازار کی افواہیں ہیں

قیس و فرہاد کا منہ؟ مجھ سے مقابل ہوں گے؟
مردم وادی و کہسار کی افواہیں ہیں

یہ بھی کچھ بات ہے میں اور کروں غیر سے بات
تم نہ مانو کہ یہ اغیار کی افواہیں ہیں

کس توقع پہ جئیں شیفتہؔ مایوس کرم
غیر پر بھی ستم یار کی افواہیں ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse