اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سہی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہوگی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا
یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |