اخبار نویسی اور اس کے فرائض
ایک شخص نے گدھوں کے سوداگر سے جا کر کہا کہ ’’مجھ کو ایک ایسا گدھا مطلوب ہے جونہ زیادہ چھوٹے قد کا ہو نہ بہت بڑے قد کا۔ جب رستہ صاف ہو تو اچھلتا کودتا چلے اور جب راستے میں بھیڑ ہو تو آہستہ قدم اٹھائے۔ نہ دیوار و در سے اڑتا چلے نہ گنجان درختوں میں سوار کولے کر گھس جائے۔ اگر چارہ کم دی اجائے تو صبر کرے اور پیٹ بھراؤ دیا جائے تو شکر کرے۔ جب اس پر سوار ہوں تو چالاک بن جائے اور جب تھان پر باندھ دیں تو کان نہ ہلائے۔‘‘ سوداگر نے جواب دیا، ’’چند روز صبر کر۔ اگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت ک املہ سے قاضی شہر کو گدھا بنا دیا تو تیرا سوال پورا کر سکوں گا۔‘‘ اگر آج کل کوئی کسی سے ایسا سوال کرے تو اس کو قاضی کی جگہ اخبار نویس کا نام لینا چاہئے۔ کیوں کہ قاضی میں صرف دو صفتیں ہونی ضرور ہیں۔ا۔ اس قانون کی واقفیت جس کی رو سے وہ فیصلے کرتا ہے۔ب۔ انصافبہ خلاف اخبار نویس کے کہ اس میں اپنے فرائض کی بجاآوری کے لئے بے شمار لیاقتوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک کسی شخص کی نسبت یہ کہنا کہ ’’وہ اخبار نویسی کی پوری لیاقت رکھتا ہے۔‘‘ گویااس امر کو تسلیم کر لینا ہے کہ ’’اس کی ذات میں ہرقسم کی لیاقت اور فضیلت موجود ہے۔‘‘ اخبار نویس قطع نظر اس کے کہ قوم کا ناصح، ملک کا وکیل اور گورنمنٹ کا مشیر ہوتا ہے۔ وہ ایک قسم کا تاجر بھی ہے جس کو کم از کم مصارف اخبار اور اپنے حوائج ضرور یہ کے لئے اپنی محنت کا معاوضہ ملک سے وصول کرنا پڑتا ہے۔ پس جس طرح آزادی، انصاف اور دیانت اس کی ذات میں ہونی ضروری ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اس کے انداز بیان اور طرز تحریر میں ایک قوت مقناطیسی کا ہونا بھی ضروری ہے جس سے وہ پبلک کے دلوں پر فتح حاصل کرسکے۔مگر جہاں پبلک کے عام مذاق صحیح نہ ہوں، جہاں ظرافت اور مسخرگی اور استہزا واقعات اور حقائق سے زیادہ مرغوب ہوں، جہاں معزز اور شریف لوگوں پر پھبتیاں کہنا داخل حسن بیان سمجھا جائے، جہاں گورنمنٹ پربے جا اور اندھادھند نکتہ چینی کرنے کانام ’’آزادی‘‘ رکھا جائے وہاں باوجود آزادی و انصاف و دیانت کے پبلک کے دلوں کو مسخر کرنا قریب نا ممکن کے معلوم ہوتا ہے۔ ہندوستان کے دیسی اخباروں کی عام حالت کیا گورنمنٹ کے نزدیک اور کیا ملک کے لائق آدمیوں کے نزدیک اب تک بہت بری سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جس طرح کسی بستی میں زیادہ تر بوسیدہ اورشکستہ مکانوں اور کھنڈروں کا ہونا اس بستی کے افلاس پر دلالت کرتا ہے، یا کسی ملک کی شاعری میں زیادہ ترہزل اورجھوٹ اور بے تہذیبی کا پایا جانا اس ملک کے مذاق فاسد پر گواہی دیتا ہے۔ اسی طرح اخباروں کابری حالت میں ہونا اخبار نویسوں کی بے سلیقگی کی نسبت زیادہ تر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پبلک کا مذاق صحیح نہیں ہے۔باایں ہمہ اخبار نویسوں کومعذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ ان کا پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی جادو بیانی سے پبلک کے مذاق کو اگر وہ فاسد ہے توصحیح اور اگر صحیح ہے تواعلیٰ درجے کا صحیح بنا دیں۔ اخبار کے پست حالت میں رہنے کے دوہی سبب ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایڈیٹر میں اخبار چلانے کی لیاقت نہیں ہے بلکہ اس نے صرف یہ دیکھ کر کہ بہت سے لوگ اخبار کے ذریعہ سے آسودگی کے ساتھ بسر کرتے ہیں، اخبار کو محض ایک حیلہ معاش سمجھ کر جاری کر لیا ہے۔ یایہ کہ ایڈیٹر میں کافی لیاقت موجود ہے مگر چونکہ پبلک کا مذاق صحیح نہیں ہے اس لئے وہ اپنی اصلی لیاقت کوکام میں نہیں لاتا بلکہ زمانے کے تیور دیکھتا رہتا ہے کہ لوگ کس بات کو پسند کرتے ہیں اور کس بات کو نا پسند اور جو طریقہ ان کے مذاق کے موافق ہوتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے۔پہلی صورت میں سوااس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ایک بدآواز مؤذن کو کچھ دنیا کرکے اذان سے روکا گیا تھا، اسی طرح ایسے ایڈیٹروں کے لئے لوگ چندہ کرکے کچھ تنخواہ اس شرط پر مقرر کر دیں کہ وہ مہربانی کرکے کبھی اخبار نہ نکالیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی طاقت کے اندازہ کرنے میں دھوکہ کھایا ہے اور اپنے لئے پیشہ انتخاب کرنے میں ویسی ہی غلطی کی ہے جیسے کوے نے ہنس کی چال چلنے میں کی تھی۔ لیکن دوسری صورت میں ایڈیٹر سخت الزام کے قابل ہیں۔ وہ باوجود یکہ قوم کے ناصح ہیں مگر اس کو گمراہ کرتے ہیں اور طبیب ہوکر لوگوں کو مہلک دوا دیتے ہیں۔ ان کی مثال اس طبیب جیسی ہے جو بیماروں کو دوا اور پرہیز ان کی مرضی کے موافق بتاتا ہے اوران کو خوش رکھنا چاہتا ہے نہ کہ تندرست کرتا۔اس قسم کے ایڈیٹروں کو (جن کی تعداد ملک میں بہ کثرت ہے) خوب یاد رکھنا چاہئے کہ معزز کاموں کاصلہ روپیہ اور دولت نہیں ہے۔ دیکھو ایک گویا جو اچھی طرح گاتا ہے، ایک تماشاگر جو عمدہ تماشا دکھاتا ہے، ایک خدمت گار جو ہوشیاری اور سلیقہ سے کام کرتا ہے، ایک طوائف جو دلفریب طریقے سے گاتی ناچتی ہے، ایک مسخرہ جو اپنے مسخرے پن سے امیروں کو خوش کرتا ہے یہ اوراس قسم کے تمام لوگ روپیہ کمانے میں علماء حکماء اور اہل کمال سے بالعموم اچھے رہتے ہیں۔ پس ایڈیٹر جو ملک کا وکیل اور گورنمنٹ کا مشیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ بھی صرف روپیہ کمانے کے لئے اخبار کو پبلک کے مذاق فاسد کا تابع رکھنا چاہتا ہے تو وہ بھی مذکورہ بالا اشخاص سے کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں جو شخص اخبار نویسی کے فرائض پورے پورے ادا کرنے چاہے، اس کو اول اول کسی قدر مشکلات کاسامنا کرنا پڑےگا۔ لیکن یاد رہے کہ سچی عزت جڑکی طرح اندر ہی اندر پھیلتی ہے اور جھوٹی عزت پھولوں کی طرح جلد مرجھا کر خاک میں مل جاتی ہے۔ سچی عزت نیکی کا سایہ ہے۔ جب تک نیکی باقی ہے عزت اس کے ساتھ ہے۔ جو لوگ اول قدم پر مقبول اور ہر دلعزیز ہونا چاہتے ہیں وہ کبھی مقبول اور ہر دلعزیز نہ ہوں گے۔ جن کاموں سے جلد فائدہ حاصل کرنے کی آرزو کی جاتی ہے ان کے فائدے قلیل اور ناپائیدار ہوتے ہیں مگر جو کام صبر اور استقلال کے ساتھ کئے جاتے ہیں، ان سے آخرکار وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ کسی حکیم کا قول ہے کہ ’’قسمت جلدبازوں سے چیزوں کی قیمت ٹھوک بجا کر لیتی ہے مگر صبر کرنے والوں کو مفت دیتی ہے۔‘‘ جو لوگ اخبار نویسی کی عمدہ لیاقت رکھتے ہیں، وہ ہندوستان کے دیسی اخباروں میں بہت آسانی سے فوقیت اور امتیاز حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ بہ خلاف انگلستان کے کہ وہاں سب سے اعلیٰ اورافضل اخبار نکالنا بظاہر امکان سے خارج معلوم ہوتا ہے۔ ایک ایسے شخص کے لئے جو ایڈیٹر کی عمدہ لیاقت رکھتا ہو ہندوستان کے عام اخباروں کا پست حالت میں ہونا بہت نیک فال ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’جہاں کوئی برا نہ ہو وہاں اچھا کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ بہ خلاف اس کے جہاں برے ہی برے ہوں یا برے اچھوں سے زیادہ ہوں وہاں اچھا بن جانا بہت آسان ہے۔ اسپارٹا والے سب بہادر تھے اس لئے وہاں کسی کی بہادری کی تعریف نہ ہوتی تھی لیکن اگر بنگال میں کوئی بنگالی شخص سپہ گری کے فن میں کمال بہم پہنچائے تو وہ تمام قوم میں سربرآوردہ ہو سکتا ہے۔ایک لائق اخبار نویس کے فرائضاگرہندوستان میں کوئی شخص اخبار نویسی کے فن میں اصلی اور حقیقی ترقی کرنی چاہے تو،اپنی جنرل انفارمیشن (معلوما ت عامہ) کو وسعت دے۔اپنی طرز تحریر میں اعتدال پیدا کرے۔مدح وستائش میں مبالغہ کو کام نہ فرمائے۔نکتہ چینی میں خیرخواہی اورسنجیدگی کو ہاتھ سے نہ دے۔جب تک کسی معاملے کے تمام پہلو اس کی نظر میں نہ ہوں تب تک اس پر رائے دینے میں جرأت اور جلد بازی نہ کرے۔جب تک خبر کسی معتبر ذریعے سے نہ پہنچے اس وقت تک اسے شائع نہ کرے۔ظرافت قدر ضرورت سے زیادہ کام میں نہ لائے۔ملایانہ اور طالب علمانہ بحثوں میں نہ پڑے۔مذہبی مباحث میں نہایت ضرورت کے بغیر دخل نہ دے۔ملک میں جو اچھے کام کرتے ہیں ان کو چمکائے اور جن سے کوئی برا کام سرزد ہو اسے تابم قد و رچشم پوشی کرے۔جن کی برائیوں سے ملک یا سوسائٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ان پر آزادانہ گرفت کرے۔تحریر میں سادگی، متانت اور جامعیت اختیار کرے۔کارسپانڈنٹوں (نامہ نگاروں) کی دل آزار تحریروں سے جوان کی ذاتی اغراض پر مبنی ہوں، اپنے اخبار کو پاک رکھے۔اخبار کی کتابت، چھپائی اورصحت کا نہایت کوشش اور توجہ سے خیال رکھے۔اس امر کا خاص اہتمام رکھے کہ اخبار بالکل تاریخ معین اور وقت مقرر پر شائع ہوا کرے۔گورنمنٹ اور حکام کی نسبت جو کچھ لکھے اس میں ادب اور تعظیم کونصب العین رکھے۔ غرض کوئی فرض اپنے فرائض میں سے تابم قدورفر و گزاشت نہ کرے اور کوئی بات اپنے کانشنس (ضمیر) اور انصاف ودیانت اور آزادی کے برخلاف نہ لکھے۔ایسا شخص جوان تمام باتوں پر جوبیان ہوئیں پورے طورپر عمل پیرا ہو اس کی نسبت امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اپنے ہم عصروں اورہم پیشہ اشخاص میں ممتاز ہوگا۔ جومختصر فرائض ہم نے اخبار نویسی کے اوپر بیان کئے، شاید کوئی یہ سمجھے کہ اتنے فرائض ایک اکیلے آدمی سے کیوں کر ادا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان سب کا اصل اصول راستی اور سچائی ہے اور یہ ایسا صاف، سیدھا، پرامن اور بے خطر رستہ ہے جو نہایت آسانی سے بے زحمت و مشقت طے ہوتا ہے اور کبھی منزل مقصود پر پہنچانے میں خطا نہیں کرتا۔ جس طرح ایک جھوٹ کے ترک کرنے سے تمام گناہ خود بخود ترک ہو جاتے ہیں اسی طرح کسی پیشہ میں راست بازی اور سچائی اختیار کرنے سے اس پیشہ کے تمام فرائض خود بخود ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ راستی ایک سیدھی راہ ہے جس پر راہ گیر آنکھ بند کرکے چل سکتا اور منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے، لیکن جہاں اس سے بہکا پھر جتنا آگے بڑھتا جائےگا اتنا ہی منزل سے دور ہوتا جائےگا۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |