ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی
غضب تھا ان کا تلون کہ چار ہی دن میں
نگاہ لطف نگاہ عتاب ہو کے رہی
تری گلی کی ہوا دل کو راس کیا آتی
ہوا یہ حال کہ مٹی خراب ہو کے رہی
وہ آہ دل جسے سن سن کے آپ ہنستے تھے
خدنگ ناز کا آخر جواب ہو کے رہی
پڑی تھی کشت تمنا جو خشک مدت سے
رہین منت چشم پر آب ہو کے رہی
ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی
کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو
اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی
وہ بزم عیش جو رہتی تھی گرم راتوں کو
فسانہ ہو کے رہی ایک خواب ہو کے رہی
جلیلؔ فصل بہاری کی دیکھیے تاثیر
گری جو بوند گھٹا سے شراب ہو کے رہی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |