اذاں سے نعرۂ ناقوس پیدا ہو نہیں سکتا
اذاں سے نعرۂ ناقوس پیدا ہو نہیں سکتا
ابھی کچھ روز تک کعبہ کلیسا ہو نہیں سکتا
زباں سے جوش قومی دل میں پیدا ہو نہیں سکتا
ابلنے سے کنواں وسعت میں دریا ہو نہیں سکتا
بہت پنہاں رہی دل میں خلش خار تعصب کی
مگر اب امتحاں کے وقت پردہ ہو نہیں سکتا
گراں ہے جنس اور نیت خریداروں کی ابتر ہے
اب اس بازار میں الفت کا سودا ہو نہیں سکتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |