اردو لٹریچر کے عناصرخمسہ
آئندہ زمانہ میں اردو لٹریچر کی اگر تاریخ لکھی گئی تو انیسویں صدی کا پچھلا دور اس عہد کا ’’نشاۃ الثانیہ‘‘ (یعنی دور جدید) ہوگا جس میں ایک بازاری زبان جس کا سرمایہ ناز ایک بے غایت شاعری کا مجموعۂ خودرو تھا، منازل ارتقائی طے کرتی ہوئی اس سطح امتیازیہ کے قریب قریب پہنچ گئی جہاں دنیا کی اعلیٰ تر زبانیں اپنا سکہ جما رہی ہیں۔
کل کی بات ہے جب تُک سے تُک ملا لینا کمال فن سمجھا جاتا تھا۔ گرمی محفل کے لیے چند مصرعوں کی پیوندکاریاں لٹریچر کے فرائض سے ہم کو سبکدوش کر دیتی تھیں لیکن اقتضائے وقت کے ساتھ تغیر مذاق دیکھئے کہ آ ج ہم کو ان کے ذکر سے بھی شرم آتی ہے۔ یہ کیوں؟ صرف اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کائنات میں کوئی چیز نہیں جو تغیر پذیر نہ ہو، ہمارے جذبات بدلے، خیالات بدلے، تغیر حالت کے ساتھ وہ آثار خارجی بھی جن میں ہم گھرے ہوئے تھے، کچھ سے کچھ ہوگئے۔ غرض زمین بدلی، آسمان بدلا اور ہم بھی وہ نہیں رہے جوپہلے تھے اور ابھی معلوم نہیں مؤثرات خارجی اور واقعات کی قدرتی رو ہم کو کہاں سے کہاں لے جائے گی۔
اس کش مکش اور سلسلۂ انقلابات میں اتنا ہوش کہاں کہ طبقات ارتقائی کی درمیانی کڑیاں آپ کو گنائی جائیں، صرف یہ سمجھ لیجئے کہ بوسیدہ اور فانی اجزا کی جگہ قوی تر عناصر نے لے لی اور اقلیم سخن کی شریف ترہستیاں عالم وجود میں آئیں جن سے اردو سا کم سواد لٹریچر ایک دم سے آشنائے فلسفۂ ادب ہو گیا۔ میری غرض لائق عزت سرسید، پروفیسر آزاد، نذیر احمد، حالی و شبلی سے ہے جن کے قلم کے سایہ میں اردو یعنی کل کی چھوکری اتنی رودار ہو گئی کہ السنۂ یورپ یعنی مغربی سے بے تکلف آنکھیں ملا سکتی ہیں، ان میں سے ہر شخص مختص النوع خصائص ادبی کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ کا آپ مالک ہے اور جس طرح ادب القدما (یعنی کلاسیکس) آج واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے، ایک وقت آئے گا جب ان کے ادبیات کا بیشتر حصہ لائق پرستش اور غیرفانی سمجھا جائےگا۔
یہ موضوع نہایت اہم ہے اور چونکہ بہت پھیلایا جا سکتا ہے، اس لئے سرسری طور پر ٹالنا منظور نہیں، بلکہ میری خواہش ہے کہ آج کل کے اچھے لکھنے والے اس پر قلم آزمائی کریں۔ میری عرض لائف نگاری سے نہیں ہے بلکہ صرف تنقید ادبی (یعنی لٹریری ریویو) چاہتا ہوں، جس میں بہ لحاظ فن فرداً فرداً ہر مصنف کے نتائج فکر کی خصوصیات اس طرح دکھائی جائیں کہ ایک حد تک تنقیدات عالیہ (یعنی ہائر کریٹی سزم) کا حق ادا ہو جائے۔
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ چڑھایا، دراصل ان کی اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ انہیں کے قلم کی آواز باز گشت ہے جو ملک میں بڑے سے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی، آج جو خیالات بڑی آب و تاب اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلوہ گر کئے جاتے ہیں، دراصل اسی زبرست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں، ورنہ پہلے یہ جنس گراں باربا صف استطاعت اچھے اچھوں کے دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم اعتراف صرف ناشکری نہیں بلکہ تاریخی غلطی ہے اور میں خوش ہوں کہ شریف النفس حالی نے آج کل کی بہتر سے بہتر ’’سوانح عمری‘‘ لکھ کر منحرف طبائع کو بہ وساطت سخت سے سخت شکست دی جو خیال میں آ سکتی ہے۔ لیکن نئی نسل پچھلا سبق کسی قدر بھول چکی ہے، حالانکہ سرسید کے حقوق زیادہ تر اسی کی گردن پر ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہئے کہ لٹریچر کے حقوق کا اقتضا یہ ہے کہ سرسید کے علمی کارنامے پر نگاہ عکس ریز ڈالی جائے اور اس کے لئے سید سجاد حیدر (یلدرم) مجھے زیادہ تر موزوں معلوم ہوتے ہیں۔
علامہ نذیر احمد کو میں ’’ثم المارہروی‘‘ توبہ! سید افتخار عالم کے سر لگانا چاہتا ہوں، جنھوں نے حال میں مولانا کی نہایت مفصل سوانح عمری شائع کی ہے، بالاستحقاق ان سے بہتر کوئی شخص خیال میں نہیں آتا۔ یہ لکھیں گے اور ہم دردانہ اور سخن گسترانہ لکھیں گے۔ اسی کی ضرورت ہے۔ نذیر احمد گو ایک حد تک عقلیات سے رسیاں تڑاتے رہے لیکن ادب اور ’’منقولات‘‘ سے متعلق جو دفتر انھوں نے چھوڑا ہے، وہ اس قدر اہم ہے کہ کچھ سرسری ریمارک کرنا چاہتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سے شروع کروں۔ ان کی اعلیٰ درجہ کی عربیت کے ساتھ بے مثل قدرت بیان، وسیع ذخیرۂ الفاظ اور وہ تصرفات جو جدت خیال اور ظریفانہ نکتہ سنجیوں کے لحاظ سے صرف اس شخص کا حصہ ہیں، لٹریچر کی جان ہیں۔ اس پر اضافہ کیجئے اردو سی کم مایہ زبان کا ایسے شریفانہ قالب میں ڈھلنا جس پر کلاسیکس کا دھوکا ہو۔
بعض صاحبوں کو غالب کی طرح ان کی مشکل پسندی کا رونا ہے اور وہ پیوندکاریاں جو ان کی شستہ رفتہ اور برجستہ اردو میں ہوتی ہیں جس میں انگریزی زیادہ بے جوڑ ہوتی ہے، عام خیال ہے کہ ثقل سے خالی نہیں، لیکن انصاف یہ ہے کہ یہ سب ان کی جدت اختراع اور قوت آخذہ کا زور ہے۔ آمد کی رو میں اضطراری طور پر اپنے پرائے کی تفریق نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ بعض حصے بہ لحاظ ترکیب و تحلیل اجزائے السنہ غیر گنگا جمنی ہوتے ہیں، تاہم متانت اور حسن کلام سے کبھی علیحدہ نہیں ہوتے جو ان کے لٹریچر کا خاصۂ طبعی ہے۔ نہ ان کے اچھوتے اور مستقل طرز ادا (اسٹایل) پر جو شارع عام سے الگ تھلگ اور آپ اپنی نظیر ہے، کوئی اثر پڑتا ہے۔ جو باتیں اوروں کے ہاں بیگانی ہیں، ان کی بے ساختگی اور برجستگی خیال کے ساتھ سلسلۂ بیان میں اس طرح جذب ہو جاتی ہیں کہ مغائرت یا اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ پھر بھی جہاں تک اس حیثیت سے اعتراض کی گنجائش ہے، ادب چاہتا ہے۔ سبک نکتہ چینیوں سے ان کا کمال ہمیشہ بے نیاز رہےگا۔
میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ باوصف کمالات علمی جو ایک حد تک ان کے ہم عصروں کو بھی مرعوب کرنے والے تھے، ان کی فطری قابلیت اور اعلیٰ مذاق سخن کی آزمائش کا بہتر سے بہتر پیرایہ کیا ہو سکتا تھا۔
جس طرح ناولوں اور تراجم میں بہ رعایت فن یہ اپنی قادرالکلامی کا بڑے سے بڑا ثبوت دے سکے، لٹریچر کے وہ اجزاء جن کا موضوع زیادہ اہم اور سنجیدہ ہے، مثلاً فلسفۂ تاریخ وغیرہ، جس میں وسعت نظر کے ساتھ تحقیق و تنقید، قوت استقرا، تفریع مسائل اور فلسفیانہ استخراج نتائج کےساتھ غیر منقطع انضباط خیال کی ضرورت ہے، یہ قصداً اس طرف نہیں آتے۔ یہی حد فاصل ہے جو شبلی کی قلم رو سے ان کے دائرہ کمالات کو جدا کرتی ہے اور یہی وہ آزادی ہے جس کے آثار ان کے لکچروں میں آپ دیکھیں گے اور جس کی بنا پر یہ اکثر کہا گیا ہے کہ وہ موضوع سخن کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان کا مرتبۂ انشا پردازی چاہتا ہے کہ ہم مان لیں کہ یہ صرف زور بیان کا قصور ہے جو اظہار فصاحت میں کسی چیز کا محکوم نہیں ہوتا۔
زمانہ کتنی ہی ترقی کرے، اس علم کے پتلے کو پھر پیدا نہیں کر سکتا جس کا کوئی رونگٹا بے کار نہیں، جہاں تک لائق ادب ’’مشرقیت‘‘ کا تعلق ہے، قوم کی یہ آخری بہار تھی جس کے اجزاء کچھ اٹھ گئے، کچھ باقی ہیں۔ قدیم علوم کے نام لیوا ایک آدھ سے زیادہ نہیں ہیں۔ جس عربی، مرحوم عربی کو ہم بیسویں صدی میں ڈھونڈتے ہیں، علامہ نذیر احمد کے ساتھ دفن ہو گئی، مگر ان کا حصۂ غیرفانی یعنی ان کی تصنیفات مرنے والی چیز نہیں۔ وہ اپنی بقائے دائمی کی آپ ضامن ہیں اور یہی انسان کا بڑے سے بڑا تخیل (آئڈیل) ہے جس سے دنیا میں کوئی بے نیاز نہیں۔
نذیر احمد کے استادانہ اور باوقار لٹریچر کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی اب نہیں ہو سکتی، لیکن اخلاف کے لئے جس قدر سرمایۂ علمی انھوں نے چھوڑا ہے، وہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ ہم ان کی قیمتی تصنیفات کو سینہ سے لگائیں گے، آنکھوں میں جگہ دیں گے۔ دائمی جدائی کے بعد ادائے سپاس کا حق کچھ تو ادا ہو رہےگا۔
سرسید کے بعد اگر ان کے رنگ میں کوئی قلم ہاتھ میں لے سکتا ہے تو بوڑھے حالیؔ ہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں جہاں فطری شاعر ہیں، اعلیٰ درجہ کے ناثر بھی ہیں۔ لائف نگاری کے ساتھ نکتہ سنجی اور سخن آفرینی کا ایک خاص سلیقہ ہے، جس نزاکت کے ساتھ ادائے خیال کے مختلف پہلوؤں سے دیکھتے دیکھتے یہ اپنا مطلب نکال لیتے ہیں، کثرت مواد کے ساتھ بھی دوسرے اس قسم کے لطیف تصرفات نہیں کر سکتے۔ طبیعت میں ایک حچا تلا خاص طرح کا مادہ ہے جو حشو و زوائد سے غرض نہیں رکھتا اور ساتھ ہی کسی موضوع بحث میں ان نکات متعلقہ کی طرف نہایت خوبصورتی سے فوری انتقال ذہن کا باعث ہوتا ہے جو دراصل اس بحث کی جان ہوتے ہیں۔ لٹریچر کا بہت بڑا وصف یہ ہے کہ سخت سے سخت مسائل باتوں باتوں میں طےکر دیے جائیں۔ یہ سلاست ونفاست قدرت کلام کی آخری حد ہے جو سرسید کے بعد حالیؔ کے حصہ میں آئی۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے خیالات و مقالات میں جھول جھال یعنی کسی طرح کا ’’تذبذب فی الرائے‘‘ نہیں ہے۔ خالص یک رنگی ہے جسے اصطلاح میں فلسفیانہ کہئے۔ معیار خیال اس قدر بلند پایہ اور سلجھا ہوا ہے کہ کہیں سے یہ بیگانے نہیں ہوتے۔ مجھے ہنسی آتی ہے جب سنتا ہوں کہ حالیؔ کی جدید شاعری بہ لحاظ فن ساقط المعیار ہے اور اس لائق نہیں کہ اس پر توجہ کی جائے۔ یہ فتویٰ ’’پرانی لکیر‘‘ کے شیدائیوں کا ہے جو خیر سے یہ بھی نہیں جانتے کہ شاعری دراصل کیا چیز ہے اور اس کا موضوع اصلی کیا ہے؟ بھیڑوں کا ایک غول ہے جو مدت ہوئی آنکھیں بند کئے ایک راستہ پر پڑ لیا اور آگے پیچھے آج تک چلا آیا لیکن ہم کو اس سے کچھ بحث نہیں، نہ ہم اس مجموعۂ ردیات پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں جو پرانے خیال والوں کا سرمایۂ ناز ہے۔ ہم ایک حد تک معصوم حماقتوں سے، کسی کی ہوں، لطف اٹھانے کے لئے تیار ہیں، کیونکہ یہ بھی ایک عیش ہے۔ صرف اتنا کیجئے کہ برے بھلے حالیؔ کو جدید گروہ کی لائق فخر پیشوائی کے لئے چھوڑ دیجئے۔
میرا خیال ہے حالیؔ کے کلام پر مولوی عبد الحق کھل کر داد سخن دیں گے۔ یہ آج تک باوصف قابلیت اور فلسفیانہ مذاق کے صرف ’’مقدمات‘‘ پر ٹالتے رہے۔ ان کا مصرف صحیح کچھ اور تھا۔ ان میں مادۂ اختراعی (اریجینٹی) خاصہ ہے مگر قوت فیصلہ کی کمی ’’صحافت‘‘ سے آگے بڑھنے نہیں دیتی، حالانکہ ان کاسلیقہ تحریر سفارشی ہے کہ مستقل تصنیف و تالیف کے سوا یہ کچھ اور نہ کرتے۔ بہرحال ان کو کم سے کم میری خواہش تو پوری کرنی ہوگی۔
یادش بخیر! شبلی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس سے زیادہ ایک زندہ مصنف پر قلم آزمائی کی گنجائش نہیں۔ چبائےہوئے نوالوں کا بار بار منھ میں پھیرنا خواہ وہ کتنے ہی خوش ذائقہ ہوں، جدت طرازی جائز نہیں رکھتی اور چونکہ نئی بات نہیں کہہ سکوں گا اس لئے مختصراً اس قدر کافی ہے کہ شبلی ملک میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا اور حکیمانہ انکشافات و نکتہ آرائیوں سے اسے ایک مستقل فن دیا۔
علی گڈھ کو انھوں نے چھوڑا اور ندوۃ العلماء نے، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے خود ان کو، لیکن میرا بس ہو تو شبلی کو ہندوستان سے باہر کالے کوسوں، یورپ کے کسی ’’بیت الحکماء‘‘ (لٹریری اکیڈمی) میں بھیج دوں جہاں ان کو اپنی غیرمعمولی قابلیت کی داد بڑے بڑے علمائے مستشرقین سےملےگی جو بہ لحاظ ہم فنی، ان کے یاران طریقت ہیں۔ شبلی کا وسیع دائرۂ تحقیقات، اہل زبان کی سی فارسی اس میں بھی شاعری کا ملکۂ راسخہ اور سب سے زیادہ اپنی زبان میں ان کی لائق رشک انشاپردازی، وہ صفات ہیں جو علانیہ ان کو ہم نفسوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ شعر العجم کے چوتھے حصہ میں فلسفۂ شاعری پر مختلف پہلوؤں سے جس طرح تنقید کا حق ادا کیا گیا ہے، ’’ادب الاساتذہ‘‘ کا بہتر سے بہتر مرقع ہے جس پر دنیا کی کوئی زبان فخر کر سکتی ہے۔
اردو میں ان کے مطائباتِ نظم کو جو جدید پیداوار ہیں، ان کے سلسلۂ کمالات سے علیحدہ کرکے دیکھئے جن میں لطائف ادبی کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں، یہ رنگ بھی ان ہی کا حصہ ہے، شوخی کے ساتھ سنجیدگی یہ معلوم ہوتا ہے دور سے زبان کی بلائیں لے رہی ہے۔ لیکن اس کی جامعیت کے ساتھ بھی سوال یہ ہے کہ قوم نے کہاں تک حوصلہ افزائی کی؟
کل کی بات ہے ایک اتفاقی واقعہ پر شبلی پر ملک کے چپہ چپہ سے لے دے شروع ہوگئی اور اس قدر غل شور ہوا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ بڑے بڑے سنجیدہ حضرات اپنے نامۂ اعمال کی طرح اخباروں کے کالم سیاہ کرتے رہے جس سے کچھ دنوں کے لئے اخباری افق کی فضائے بسیط ایک دم سے تیرہ و تار ہو گئی۔ کیا یہ کوئی علمی واقعہ تھا؟ ہرگز نہیں صرف حاسدین کی کم نظری تھی۔ دلوں کی جمی ہوئی سیاہی لغزش قلم سےٹپکی اور بری طرح ٹپکی لیکن شرافت علم دیکھئے! شررؔ کو جو ’’شبلی‘‘ پر کبھی کبھی سخن گسترانہ چوٹیں کرتے تھے، اس ناگوار واقعہ کے بعد جس کا انجام ندوہ سے مولانا کی دست کشی پر ہوا، اپنی آواز بلند کرنی پڑی۔ وہ صاف صاف کہہ گذرے کہ ندوہ میں جو کچھ دم تھا، شبلی کی وجہ سے تھا، اب وہ ایک جسد بے روح ہے۔ اسی ضمن میں مولانا کے کمالات کا شناسانہ اعتراف اور قوم کی ناسپاری کا رونا تھا۔
’’نقاد‘‘میں تاریخ کا معلم اول کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ ایک قاصر النظر نے اہتمام کے ساتھ ’’مشرق‘‘ میں اس کی تردید کی جسارت کی لیکن عامیانہ و حاسدانہ، جس میں علامہ شبلی کو ان اوصاف سے معرا کرکے دکھایا تھا جو مضمون نگار نے حسن عقیدت سے نہیں بلکہ خود ’’فلسفہ‘‘ کے ایما سے غیرفانی شبلی کی طرف منسوب کئے تھے۔
بہرحال میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ شبلی پر اگر کوئی قلم اٹھانا چاہے تو جی لگنے کے سامانوں میں کمی نہیں۔ میرے خیال میں سید عبدالماجد اگر فلسفۂ تاریخ سے اتنی ہی دلچسپی کا اظہار کرتے جس اہتمام سے ’’الکلام‘‘ پر منحرفانہ نظر ڈالی گئی تھی تو کفارۂ معصیت کے ساتھ تنقید کا بھی حق ادا ہو جاتا۔
سب سے آخر، مگر دراصل سرفہرست آزادؔ پر میں خود کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ آزاد اس پایہ کے ادیب ہیں کہ ان کے دائرہ کے اور خلاقین سخن کو ان کے آگے سر جھکانا پڑےگا۔ آزاد کی جن حیثیتوں پر خصوصیت کے ساتھ نگاہ پڑسکتی ہے، وہ تحقیقات السنہ کے مذاق کے ساتھ پاکیزگیٔ زبان اور آزاد کا خاص انداز بیان ہے جس سے ان کی نثر عموماً زرنگار معلوم ہوتی ہے۔
ایک مغربی شاعر کے خیال میں جس نے شوخی سے عالم فطرت (نیچر) پر کمال صنعت (آرٹ) کو ترجیح دی ہے، خوش آب موتیوں کا نشاط انگیز انتشار کے ساتھ فرش ریشمی پر بکھر جانا روانیٔ آب سے زیادہ دلکش ہے مگر اس سے زیادہ تر دلکش ہے کسی نازک خیال مصنف کی مرصع پیداوار دماغی جو حسن صوری اور معنوی کے ساتھ آمد اور بے ساختہ پن کی تصویر ہو۔ اس کے سلیس ونفیس لٹریچر کا یہ وصف اضافی کہ روکھے پھیکے مسائل کو بھی اس لطافت سے جذب کر سکے کہ کہیں سے بار طبیعت نہ ہو اور فسانے (یعنی لائٹ ریڈنگ) کا لطف آئے، میرا خیال ہے لائق ذکر خصائص میں سے ہے، جس کی بنا پر ایک مشہور موقع پر یہ کہا گیا تھا کہ ’’آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے۔‘‘
جس طرح تاریخ میں فلسفہ کا رنگ سب سے پہلے شبلی نے چمکایا ہے، اردو کو انشاپردازی کے درجہ پر جس نے پہونچایا وہ آزاد اور صرف آزاد ہیں اور گو اس مسئلہ پر ابھی کافی توجہ نہیں کی گئی ہے، لیکن آزاد کی ادبی فتوحات تاریخ لٹریچر کا ایک واقعہ ہے جس کا فیصلہ خود فلسفۂ ادب کے ہاتھوں میں ہوگا۔ جن حضرات کی نگاہیں دلی لکھنؤ کے اختلافات تک محدود ہیں یا جن کی قاصر النظری میرے اس خیال کی تائید کی مانع ہو وہ مجھے معاف فرمائیں گے، اگر میں بلا خوف تردید یہ عرض کروں کہ پروفیسر آزاد کا درجہ بحیثیت ادیب جو کچھ ہے اس کا سمجھنا دوم درجہ کی خلقت کے لئے جو فلسفہ لٹریچر سے قطعاً بیگانہ ہے، آسان نہیں ہے۔ اس لئے کسی اختلافی بحث کا چھیڑنا ’’گول خانہ میں چوکھنٹی چیز ہے‘‘ سے بھی زیادہ گیا گذرا ہوگا۔
سرسید سے ’’معقولات‘‘ الگ کرلیجئے تو کچھ نہیں رہتے، نذیر احمدبغیرمذہب کے لقمہ نہیں توڑسکتے، شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن ’’آقائے اردو‘‘ یعنی پروفیسر آزاد صرف انشا پرداز ہیں جن کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، اسی لئے واقعات بھی انھوں نے جس قدر لکھے ہیں، ’’قصص‘‘ (یعنی ٹیلز) کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں ’’افسانہ یارانہ کہن‘‘ سمجھئے۔
اس بحث کو اصل تنقیدی مضمون میں پھیلاؤں گا، یہاں افتتاحی حیثیت سے بھی قوت کا صرف کرنا منظور نہیں۔ اسی سلسلہ میں آپ دیکھیں گے کہ جدید شاعری جس کے ’’آدم‘‘ حالی سمجھے جاتےہیں، غالباً اس کی داغ بیل سب سے پہلے آزاد نے ڈالی تھی۔ مجھ کو آزاد کے لٹریچر سے غیرمعمولی دلچسپی ہے، اس لئے ذرا تفصیل کے ساتھ ان کی دلکش تصنیفات کے ان اجزاء کو ابھار کر دکھاؤں گا جن کا ایک ایک حرف لٹریچر کی جان ہے۔
بہرحال ارکان خمسہ کی تجویز آپ کے سامنے ہے۔ اکبری نورتن کے مقابلہ میں بعض صاحبوں کو یہ تجدید پسند نہ آئے گی لیکن مجھے افسوس ہے کہ مصنفین کی صف اول میں اس سے زیادہ گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔ تاہم غیر ضروری نکتہ چینی سے علیحدہ ہوکر اگر کوئی صاحب (بشرطیکہ لٹریچر کا صحیح مذاق رکھتے ہوں) مجھے مفید مشورہ دے سکیں تو میرا خیال ہے میں اس پر غور کرنے کے لئے ایک حد تک تیار ہوں۔
اس تجویز کو قوت سے فعل میں لانے کے لئے ضرورت ہے کہ کم سے کم سو صفحے ہر مصنف کے نذر کئے جائیں۔اس طرح پانچ سو صفحوں کی ایک کتاب تیار ہوجائےگی جس کا ایک طبع خاصہ (یعنی اڈیشن ڈی لکس) بہتر سے بہتر کاغذ اور چھپائی کے ساتھ شائع ہوگا، جس میں مصنفین کے ساتھ منقدین کی ہاف ٹون عکسی تصویریں شامل کی جائیں گی۔ اس کی تکمیل مالی امداد سے قطعاً بے نیاز ہے۔ صرف ضرورت ہے تو ترتیب مضامین کی، جس کی طرف ایک مرتبہ اور میں ان اصحاب کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جن کو فرداً فرداً میں نے نامزد کرنے کی عزت حاصل کی ہے۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |