اردو کی مقبولیت کے اسباب

اردو کی مقبولیت کے اسباب
by مولوی عبد الحق
319572اردو کی مقبولیت کے اسبابمولوی عبد الحق

گری زوں سوسنان کا ایک پرگنہ ہے اور پہاڑی علاقہ ہے۔ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان کے ہاں قدیم سے ایک روایت مشہور چلی آ رہی ہے کہ خلاق عالم نے فرشتہ کلمائیل کو بیجوں بھرے تھیلے دیے اور فرمایا جاؤ تم دنیا کا ایک چکر لگاؤ۔ فرشتے نے ارشاد خداوندی کی تعمیل کی اور یہ بیج بنی نوع انسان کے دماغوں میں جم گئے اور فوراً اگنے شروع ہوئے اور زبانیں چشمے کی طرح ابلنے لگیں۔ جب فرشتہ کلمائیل اپنے تھیلے خالی کرچکا اور خلاق عالم کے واپس آنے کو ہوا تو یہ دیکھ کر اسے سخت ندامت اور پریشانی ہوئی کہ گری زون کا علاقہ چھٹ گیا ہے۔ اس نے خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس فروگزاشت کے متعلق عرض کیا۔ خدا نے مختلف تھیلیوں کے ملے جلے بیج جو بچ رہے تھے، اسے دیے اور کہا کہ جاؤ یہ وہاں جاکر بو آؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہاڑی آبادی میں طرح طرح کی زبانیں اور بولیاں پائی جاتی ہیں۔

یہ نقل بہ نسبت گری زون کے ہندوستان پر زیادہ صادق آتی ہے۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد بیسیوں نہیں سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے لیکن اس ہجوم میں ایک زبان ایسی بھی نظر آتی ہے جو ملک کے اکثر علاقوں میں بولی جاتی ہے اور تقریباً ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ زبان ہندوستانی اردو ہے جس کا ادب نظم و نثر میں نویں صدی عیسوی سے مسلسل موجود ہے۔ یہ ہمارا ہی دعویٰ نہیں بلکہ اس کی شہادت غیروں نے بھی دی ہے اور یہ شہادتیں یوروپی سیاحوں کی تحریروں میں سترہویں صدی کی ابتداء سے بعد تک برابر ملتی ہیں۔ ایک موقع پر کسی خاص معاملے میں ابی سینا کے سفیر خوجہ (Movaad) سے چند استفسارات کیے گئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ کہ ’’فلاں شخص نے آپ کی حضوری میں کس زبان میں گفتگو کی۔‘‘ وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہندوستانی زبان میں جس کی ترجمانی ویر ہزاکسیلینزی دی ہائی گورنمنٹ آف بٹاویا کے سیکریٹری نے کی۔‘‘ یہ واقعہ 1697ء کا ہے۔ اس زمانہ کا ایک سیاح لکھتا ہے کہ ’’دربار کی زبان تو فارسی ہے مگر عام بول چال کی زبان ’اندوستان‘ ہے۔‘‘

یہ اگلی باتیں ہیں۔ انہیں جانے دیجئے، کمپنی کے زمانے کو لیجئے۔ جب ایسٹ انڈیا نے اپنا کاروبار یہاں جمایا اور تجارت سے سیاست کی طرف قدم بڑھایا تو تجارت اور سیاست دونوں اغراض کی خاطر تازہ ولایت نوکار انگریزی ملازموں کی تعلیم کے لیے ملک کی ایک ایسی زبان کا انتخاب کیا جو اپنی عام مقبولیت اور وسعت کی وجہ سے سب سے زیادہ کار آمد تھی۔ یہ زبان ہندوستانی یعنی اردو تھی، اس کے لیے ایک بڑا مدرسہ قائم کیا گیا جو فورٹ ولیم کالج کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں قابل زبان داں ہندی ملازم رکھے گئے جو نوجوان نوواردوں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ اردو کی کتابیں بھی تالیف اور ترجمہ کرتے تھے۔ اس کالج کے معلم اول ڈاکٹر جان گل کرسٹ تھے۔ اردو کے محسن اور اس کے شیدائیوں میں سے تھے۔ اس زبان کو (Grand popular speech of India) کہتے ہیں۔ ایک دوسری جگہ وہ اس کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’یہ نہایت کارآمد اور عام زبان ہے جس پر ہندوستان فخر کر سکتا ہے۔‘‘

اب میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اردو کی مقبولیت کے کیا اسباب ہوئے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی مقبولیت عام کی یہ ہوئی کہ اس کی بنیاد عوام کی زبان پر رکھی گئی تھی جو بول چال کی زبان تھی۔ خود اردو کا لفظ ہی اس کی اصل اور ابتداء کا پتہ دیتا ہے اور اس وقت جتنی شائستہ اعلیٰ درجہ کی زبانیں ہیں، جن کی دھاک ساری دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے، وہ ایک وقت میں عوام کی معمولی بولیاں تھیں اور حقارت کی نظر سے بولی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ خود اہل زبان اس میں لکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ بعینہ یہی حال پہلے پہلے اردو کا بھی تھا۔ اس کے بولنے والے بھی اس میں لکھتے ہچکچاتے تھے اور جو کبھی کوئی لکھتا اور وہ بھی مذہبی ضرورت سے ہوتا تھا تو پہلے معذرت کرتا کہ چونکہ سب عربی فارسی نہیں جانتے، اس لیے ان کے خیال سے اس زبان میں لکھ رہا ہوں لیکن آخر یہی عوام کی بولی رفتہ رفتہ شائستہ اور ادبی زبان بن گئی اور اس کا تعلق برابر عوام کی بولی سے رہا۔

عوام کی زبان مثل قلب کے ہے جس سے تمام اعضاء کو خون پہنچتا رہتا ہے اور ان کی تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ جب تک زبان کو عوام کی بولی سے مدد ملتی رہتی ہے اور وہ عوام کی بولی کا ساتھ دیتی رہتی ہے تو وہ زندہ رہتی ہے اور جس وقت سے اس کا تعلق عوام کی کی بولی سے منقطع ہو جاتا ہے تو اسی وقت سے اس پر مردنی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یونانی، سنسکرت، لاطینی جو دنیا کی کامل اور بہترین زبانیں خیال کی جاتی ہیں اسی لیے وہ مر گئیں۔ البتہ اردو پر ایک ایسا تاریک زمانہ آیا کہ ہمارے شعراء نے اکثر ہندی لفظوں کو متروک فرما دیا۔ ان کے بجائے عربی فارسی کے لفظ بھرنے شروع کیے اور یہی نہیں بلکہ بعض عربی فارسی الفاظ جو بہ تغیر ہیئت یا بہ تغیر تلفظ اردو میں داخل ہو گئے ہیں، انہیں بھی غلط قرار دے کر اصل صورت میں پیش کیا اور اس کا نام ’’اصلاح زبان‘‘ رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ تکلف اور تصنع ہمارے ادب پر چھا گئے تھے اور ہماری زبان ایک ایسی زبان ہوگئی تھی کہ ادب کو بے جان، بے لطف اور بے اثر بنا دیا تھا۔

لیکن یہ دور تاریکی چند روزہ تھا۔ اس کے دفع کرنے میں سب سے بڑا کام سید احمد خان نے کیا۔ اس کی تحریروں نے ہمارے ادب میں نئی جان ڈال دی۔ اگرچہ اس کی زبان اور اس کا انداز بیان سادہ تھا لیکن اس میں فصاحت، اثر اور قوت تھی۔ اس نے علمی اور سنجیدہ مضامین لکھنے کا نیا ڈول ڈالا اور موافق و مخالف دونوں نے اس کی پیروی کی اور اس کے رفقاء یعنی نذیر احمد، شبلی، حالی، ذکاء اللہ خاں وغیرہ نے اسے چمکایا اور بڑھایا۔ سید احمد خاں کا اردو پر بڑا احسان ہے۔ اس نے صرف ہمارے ادب ہی کو نہیں بنایا اور سنوارا بلکہ ہر موقع پر جب ضرورت پڑی اس کی حمایت کی اور اس پر آنچ نہ آنے دی۔ سرسید کی وجہ سے اب اردو ادب کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے جو ’’علی گڑھ اسکول‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔

اس نئے اسکول نے پھر عام بول چال کی طرف رجوع کی اور خاص کر نذیر احمد، حالی، آزاد، ذکاء اللہ نے ان الفاظ کو جو گھروں کے کونوں، کھدروں، گلیوں، بازاروں اور کھیتوں میں کسمپرسی کی حالت میں پڑے تھے، چن چن کے نکالا، انہیں جھاڑا پونچھا، صاف کیا، جلا دی اور ان میں سے بہت سے اچھوتوں کو مسند عزت پر لا بٹھایا۔ اس نئے خون نے جو ہمیشہ ہماری زبان کی رگ وپے میں پہنچتا رہا ہے، ہمارے ادب کی رونق اور تازگی کو دوبالا کر دیا۔

اردو کی مقبولیت کی ایک وجہ اور بھی ہوئی جو قابل غور ہے۔ جس وقت یہ زبان وجود میں آئی تو ملک میں جتنی بولیاں مروج تھیں، وہ سب اپنے چھوٹے چھوٹے رقبوں اور حلقوں میں محدود تھیں۔ یہ زبان قدرت سے ایسے ماحول اور ایسے حالات اور اس قسم کے اثرات کے تحت بنی تھی اور اس طرح سے اس کی ترکیب عمل میں آئی تھی کہ وہ خود بخود ملک کے اکثر خطوں میں پھیلتی چلی گئی اور لوگ اسے قبول کرتے چلے گئے۔ ملک میں کوئی دوسری بولی یا زبان ایسی نہ تھی جو اس کا مقابلہ کرتی اور جتنی بولیاں یا زبانیں تھیں، وہ اپنے اپنے حلقے سے باہر نہ بولی جاتی تھیں اور نہ سمجھی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اہل یورپ اور خصوصاً انگریز اس ملک میں آئے تو انہوں نے اسے ہندوستانی یعنی ہندوستان کی زبان سے موسوم کیا اور یہی وجہ ہے کہ جب فارسی کے بجائے اردو سرکاری دفاتر کی زبان قرار پائی تو کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ اختلاف ہوتا تو کس بنا پر؟ کوئی دوسری زبان ایسی تھی ہی نہیں جو ہندوستانی ہونے کا دعویٰ کرتی۔

اردو زبان کی ایک اور خصوصیت بھی ہے جس پر بہت کم توجہ کی گئی۔ وہ عورتوں کی زبان ہے۔ یوں تو دنیا میں اور بھی زبانیں ہیں، جن میں مردوں اور عورتوں کی زبان میں کچھ کچھ فرق ہے لیکن اردو زبان میں یہ فرق بہت نمایاں اور گہرا ہے۔ اردو نے جس خطے میں جنم لیا یا جہاں جہاں اس نے زیادہ رواج پایا، وہاں پردے کی رسم رائج رہی۔ اسی وجہ سے مردوں اور عورتوں کی معاشرت میں بہت کچھ فرق پیدا ہو گیا۔ عورتوں کے الفاظ اور محاورے اور ان کا طرز بیان اور بول چال بھی بہت کچھ الگ ہو گئی۔

پردے میں رہنے کی وجہ سے ان کا سارا وقت امور خانہ داری، بال بچوں کی پرورش اور نگہداشت، شادی بیاہ، رسم و رواج کی پابندی اور ان کے متعلق جتنے معاملات ہیں، اس میں صرف ہوتا ہے اور اس اقلیم میں ان کی عمل داری کامل ہوتی ہے، پھر ان کی زبان اور لہجے میں لطافت، نزاکت اور لوچ ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے تعلقات کے لحاظ سے جو طرح طرح کے لفظ، محاورے اور مثلیں بنائی ہیں، وہ بڑی لطیف، نازک، خوبصورت اور سبک ہیں۔ ایسے الفاظ جن کا زبان سے نکالنا بدتمیزی سمجھا جاتا ہے یا جن کے کہنے میں شرم و حجاب مانع ہوتا ہے، عورتیں ایسے الفاظ نہیں بولتیں بلکہ وہ اس مفہوم کو لطیف پیرائے یا تشبیہ اور استعارے کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کر جاتی ہیں۔ عربی فارسی کے ثقیل الفاظ جن کا تلفظ آسانی سے ادا نہیں ہوتا، وہ انہیں سڈول بنالیتی ہیں۔ بعض اوقات ان کے معنی تک بدل جاتے ہیں اور وہ خالص اردو کے الفاظ ہو جاتے ہیں۔

ہماری عورتوں کے الفاظ اور محاورے وغیرہ زیادہ تر ہندی ہیں یا عربی فارسی کے لفظ ہیں تو انہیں ایسا تراشا ہے کہ ان میں اردو کی چمک دمک پیدا ہو گئی ہے۔ اب جدید حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ جہاں ہماری اور بہت سی عزیز چیزیں مٹی جا رہی ہیں، یہ لطیف زبان بھی مٹتی جاتی ہے۔ ریختی گو شعراء کا بڑا احسان ہے۔ (اگرچہ ان میں سے بعض نے بہت کچھ فحش بھی بکا ہے) کہ انہوں نے اس زبان کو محفوظ کر دیا ہے۔ اس زبان کے سینکڑوں، ہزاروں الفاظ اور محاورے اور مثلیں ادبی زبان میں آ گئی ہیں اور ہمارے ادب کی زیب و زینت ہیں۔ اس زمانے میں نذیر احمد، حالی، سید احمد دہلوی، راشد الخیری اور بعض دیگر اصحاب کی بدولت صنف نازک کی اس پاکیزہ زبان کا اکثر حصہ ہمارا مشترکہ سرمایہ ہو گیا ہے۔ اس کے اضافے سے ہماری زبان میں شگفتگی اور حسن ہی نہیں پیدا ہوا بلکہ اسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.