ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا
ازل سے نقش دل ہے ناز جانانہ محمد کا
کیا ہے لوح نے محفوظ افسانہ محمد کا
ڈرے کیا آتش دوزخ سے دیوانہ محمد کا
کہ اٹھے شعلے گل کرتا ہے پروانہ محمد کا
ظہور حال و مستقبل سے ماضی کو ملا دوں گا
مجھے پھر آج دہرانا ہے افسانہ محمد کا
دوئی ایک داغ تہمت، غیرت الزام بے معنی
دہ دنیا ہے جسے اپنائے یارانہ محمد کا
شفاعت کی دعا میں وہ ہوا دیتے ہیں پر اس کے
جہنم کو بجھا سکتا ہے پروانہ محمد کا
یہاں سے تابہ جنت روک ہے کوئی نہ پرشس ہے
جہاں چاہے چلا جا ، بن کے پروانہ محمد کا
رسائی کب ہے اس تک ہوش انساں عقل درسی کی
جو اپنی رد میں کہہ جاتا ہے دیوانہ محمد کا
شعاع اس پار شیشے کے ، نظر اس پار شیشے کے
جھلک دیکھی کہ پہنچا اڑ کے پروانہ محمد کا
درود اول سخن ہو آرزو ، پھر شعر نعتیہ
زباں دھو ڈال اگر کہنا ہے افسانہ محمد کا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |