اسے کیا رات دن جو طالب دیدار پھرتے ہیں

اسے کیا رات دن جو طالب دیدار پھرتے ہیں
by صفی اورنگ آبادی
323801اسے کیا رات دن جو طالب دیدار پھرتے ہیںصفی اورنگ آبادی

اسے کیا رات دن جو طالب دیدار پھرتے ہیں
غرض ہے تو غرض کے واسطے سو بار پھرتے ہیں

ادھر دیکھو بھلا ہم کو زمانہ کیا نہیں کہتا
تو کیا ہر ایک سے کرتے ہوئے تکرار پھرتے ہیں

جو اب وحشت نہیں بھی ہے تو اپنی چال کیوں چھوڑیں
جدھر جی چاہے دن بھر رات بھر بے کار پھرتے ہیں

تری خاطر محبت ہو گئی ہے دل کی وحشت سے
ہمیں آوارہ پن پر آ گیا ہے پیار پھرتے ہیں

تڑپنے لوٹنے کی آج ان تک بھی خبر پہنچی
مجھے بدنام کرنے کو مرے غم خوار پھرتے ہیں

اسے ہم مانتے ہیں تو زمانے بھر سے اچھا ہے
مگر اچھے بھی اپنے قول سے اے یار پھرتے ہیں

سمجھتے ہیں سمجھنے والے اس کو بھی ریا کاری
گلی کوچوں میں کیوں تیرے ستم بردار پھرتے ہیں

تمہیں افسوس کیوں ہے عاشقوں کی کوچہ گردی پر
پھراتا ہے مقدر یہ خدائی خار پھرتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو اک روز تم بھی ہم سے پھر جاؤ
یہاں پہلے ہی اپنی جان سے بیزار پھرتے ہیں

وہ دل کی آرزو اب ہے نہ اس کی جستجو اب ہے
ہمارے پاؤں میں چکر ہے ہم بے کار پھرتے ہیں

کسی کافر کا گھر تھا یا نہیں معلوم جنت تھی
ابھی تک میری آنکھوں میں در و دیوار پھرتے ہیں

زمانے سے نرالا ہے چلن ان حسن والوں کا
لقب تو قاتل عالم ہے بے تلوار پھرتے ہیں

صفیؔ کو تم نے تو کوئی بڑا پہنچا ہوا سمجھا
اجی رہنے بھی دو ایسے بہت مکار پھرتے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.