اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
by جوشش عظیم آبادی

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
اس دل سے اور عقل سے ووہیں بگڑ گئی

کیا کہئے تیرے ہاتھوں سے اے دست برد عشق
اس دل کی بستی بات کے کہتے اجڑ گئی

تیرا تو قول تھا کہ نہ ہووے گی یہ تمام
اے ساقی دو ہی گھونٹ میں بس مے نبڑ گئی

ؔجوشش لکھا میں اس کو سفینے پر اس طرح
گویا کہ بھولی تھی یہ غزل یاد پڑ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse