اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
by جوشش عظیم آبادی
303085اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئیجوشش عظیم آبادی

اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
اس دل سے اور عقل سے ووہیں بگڑ گئی

کیا کہئے تیرے ہاتھوں سے اے دست برد عشق
اس دل کی بستی بات کے کہتے اجڑ گئی

تیرا تو قول تھا کہ نہ ہووے گی یہ تمام
اے ساقی دو ہی گھونٹ میں بس مے نبڑ گئی

ؔجوشش لکھا میں اس کو سفینے پر اس طرح
گویا کہ بھولی تھی یہ غزل یاد پڑ گئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.