اس دل میں اگر جلوۂ دل دار نہ ہوتا
اس دل میں اگر جلوۂ دل دار نہ ہوتا
زنہار یہ دل مظہر اسرار نہ ہوتا
ہوتا نہ اگر جام مے عشق سے سرشار
ہرگز دل دیوانہ یہ ہشیار نہ ہوتا
ہوتا نہ اگر اس کی محبت سے سروکار
یہ غمزدہ رسوا سر بازار نہ ہوتا
ہوتی نہ کبھوں اس دل بیمار کو صحت
گر لطف مسیحائے لب یار نہ ہوتا
پیتا نہ اگر جام مے عشق تو ہرگز
دل سر حقیقت سے خبردار نہ ہوتا
ہوتا نہ اگر آئینۂ جلوۂ دل دار
دل مہر صفت مطلع انوار نہ ہوتا
ہوتا نہ اگر عشق کو منظور یہ اظہار
وحدت سے یہ کثرت کو سروکار نہ ہوتا
آگاہ حقیقت سے نہ ہوتا کبھو آثمؔ
خادم کا اگر فیض مددگار نہ ہوتا
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |