اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹے
اس دل میں کر گزر جو یہ تیر آہ الٹے
اک پل میں سب فلک کی یہ بارگاہ الٹے
مفتی و شحنہ قاضی ہیں کشتہ اس نگہ کے
پھرتے ہوں اس کے ہاتھوں یہ داد خواہ الٹے
عشاق کے دلوں کو ٹک میں الٹ پلٹ دے
مکھڑے سے گر دوپٹہ وہ رشک ماہ الٹے
پھرتی ہے یوں نگاہیں اس شوخ جنگجو کی
پامال کر کے جیسے کوئی سپاہ الٹے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |