اس دل کی عمارت میں تم جلوہ دکھا جانا
اس دل کی عمارت میں تم جلوہ دکھا جانا
یا نور مبیں بن کر آنکھوں میں سما جانا
اپنا تو شکستہ دل اک خانۂ ویراں ہے
قدموں سے اسے اپنے آباد بنا جانا
عشاق کے مرقد پر حسرت یہی کہتی ہے
تم فتنۂ محشر ہو سوتوں کو جگا جانا
ان خاک نشینوں سے ملنا تمہیں لازم ہے
عشاق کے کوچہ میں بھولے سے تو آ جانا
مدت سے پیاسا میں بیٹھا ہوں ترے در پر
اک جام محبت کا خود آ کے پلا جانا
اس گردش قسمت نے سرگشتہ کیا یاں بھی
اے خضر رہ الفت تم راہ بتا جانا
آئے نہ سر بالیں گر میرے دم مردن
اب بہر دعا دلبر مرقد پہ تو آ جانا
کیا کیا نہ جفا مجھ پہ ہوتی ہے شب فرقت
الفت نے تری مجھ کو پابند وفا جانا
یہ عشق جمیلہؔ کا اے خضر رہ الفت
محبوب کے جلوہ کو اسرار خدا جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |