اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا
اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا
جب تک موئے بلوں سے نکلنا محال تھا
دیتے نہ چاٹ اگر لب شیریں کے ذکر کی
مچلے تھا طفل اشک بہلنا محال تھا
پیری میں طرز عشق جوانی وہی رہا
صورت کے ساتھ دل کا بدلنا محال تھا
قاتل تری گلی میں ہوئے سب کے سر قلم
کیسے تھے کوچے راستہ چلنا محال تھا
شکر خدا بتوں سے ہوئیں گرم جوشیاں
پتھر کا مثل شیشہ پگھلنا محال تھا
سر تن سے کٹ کے لایا شگوفہ ہمارا خون
شاخ سناں کا پھولنا پھلنا محال تھا
خط کا غبار چھپ نہ سکا روئے یار سے
آتش سے گل کے خار کا جلنا محال تھا
محفل میں ان کو عطر دیا ہوگا غیر نے
یاروں کے غم میں ہاتھوں کو ملنا محال تھا
عمر رواں کو آنکھوں سے دیکھا چلا جو یار
کیا کیجے بگڑے دل کا سنبھلنا محال تھا
دل گرمیٔ خیال سے صورت بندھی نسیمؔ
اس سیم تن کا سانچے میں ڈھلنا محال تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |