اس ستم گر سے جو ملا ہوگا

اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
by میر محمدی بیدار

اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
جان سے ہاتھ دھو چکا ہوگا

عشق میں تیرے ہم جو کچھ دیکھا
نہ کسی نے کبھی سنا ہوگا

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

تو ہی آنکھوں میں تو ہی ہے دل میں
کون یاں اور تجھ سوا ہوگا

اے میاں گل تو کھل چکے پہ کبھو
غنچۂ دل مرا بھی وا ہوگا

دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے
نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا

ہے یقیں مجھ کو تجھ ستم گر سے
دل کسی کا اگر لگا ہوگا

نالہ و آہ کرتے ہی کرتے
ایک دن یوں ہی مر گیا ہوگا

کوئی ہوگا کہ دیکھ اسے بیدارؔ
دل و دیں لے کے تج رہا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse