اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی

اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
by داغ دہلوی

اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
بات بگڑی ہوئی نہیں بنتی

وہ بنی ابتدائے الفت میں
دم پہ جو وقت واپسیں بنتی

آدمی سب فرشتے بن جاتے
آسماں پر اگر زمیں بنتی

میری صورت بنی تو خاک بنی
قسمت اے صورت آفریں بنتی

وعدہ کرتے ہی کیا وہ آ جاتے
رات بھر زلف عنبریں بنتی

کاش سنتا نہ کوئی شور و فغاں
دل کی جا چشم سرمگیں بنتی

تو نے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی

نہ چمکتی جو حسن کی تقدیر
کیوں تری چاند سی جبیں بنتی

پارۂ جیب سے مرے اے کاش
دست وحشت کی آستیں بنتی

بزم دنیا تھی قابل جنت
خوب بنتی اگر یہیں بنتی

طبع نازک کا لطف جب تھا داغؔ
نازنینوں میں نازنیں بنتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse