اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ

اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
by جوشش عظیم آبادی

اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
سر رشتۂ نگاہ کو اپنے نگاہ رکھ

کس لطف سے ہے آئنہ دیکھ اس کے رو بہ رو
گردوں نہ دل میں آرزوئے مہر و ماہ رکھ

دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو
تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ

دل دار ہو تو یا کہ دل آزار تیرا شوق
دل دے چکا میں خواہ نہ رکھ اس کو خواہ رکھ

دعوائے قتل کر تجھے منظور ہے جو دل
دامان و تیغ یار ہی کو تو گواہ رکھ

میں چاہتا ہوں تجھ کو تو چاہے ہے غیر کو
یہ کیا غضب ہے چاہنے والے کی چاہ رکھ

ؔجوشش جدا ہے یار سے تو جانتا ہوں میں
اتنا بھی اضطراب خدا پر نگاہ رکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse