اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے
اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے
اور اس کے سوا ناز کو دیکھا تو غضب ہے
باتوں میں جو چھل لیوے ہے دل پیر و جواں کا
اس طفل دعا بار کو دیکھا تو غضب ہے
کیا کیا نہ کہا اس نے مجھے تیری طرف سے
کافر ترے ہم راز کو دیکھا تو غضب ہے
ہر چند کہ ہے طوطیٔ ہند ایک ہی خوش گو
پر بلبل شیراز کو دیکھا تو غضب ہے
ہرچند کہ ہے عشق کا انجام ہی کچھ قہر
ہر حسن کے آغاز کو دیکھا تو غضب ہے
ہم منتظرؔ اتنا نہ سمجھتے تھے اسے لیک
خوب اس بت خود ساز کو دیکھا تو غضب ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |