اس قدر ظلم و ستم اے ستم ایجاد نہ کر
اس قدر ظلم و ستم اے ستم ایجاد نہ کر
خاک ہم خاک نشینوں کی تو برباد نہ کر
عشق ان کا مرے پہلو میں یہ دیتا ہے صدا
بھول جا اپنی خودی غیر کو بھی یاد نہ کر
صبر لازم ہے تجھے کوہ محبت پہ ضرور
جذب دل کو تو کہیں تیشۂ فرہاد نہ کر
شعلۂ ہجر سے خوں خشک ہوا ہے اس کا
رگ عاشق پہ ستم نشتر فصاد نہ کر
قید غم سے کہیں آزاد بھی ہو جان حزیں
قتل کرنے میں تامل مرے جلاد نہ کر
فصل گل آئی ہے شاداب ہوا ہے گلشن
بلبل زار تو یاں شیون و فریاد نہ کر
جذب دل ساتھ جمیلہؔ کا نہیں چھوڑے گا
غم نہیں خضر رہ عشق میں امداد نہ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |