اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا

اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
by انعام اللہ خاں یقین

اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
جب حنا سے ترے پاؤں کو سروکار نہ تھا

حسن کا جذب زلیخا ستی کچھ چل نہ سکا
ورنہ یہ پاک گہر قابل بازار نہ تھا

دل میں زاہد کے جو جنت کی ہوا کی ہے ہوس
کوچۂ یار میں کیا سایۂ دیوار نہ تھا

دل مرا عشق کے دھڑکوں سے موا جاتا ہے
یہ وہ دل ہے کہ کوئی ایسا جگر دار نہ تھا

آپ سے کیوں نہ ہوا کہہ کے یقیںؔ کو مارا
راست پوچھو تو کوئی مجھ سا گنہ گار نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse