اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
مجھ کو غربت میں نظر آنے لگا گھر تیرا
نشۂ مے کی بجھی پیاس نہ کچھ بھی افسوس
نام سنتے تھے بڑا چشمۂ کوثر تیرا
اپنے پامالیٔ دل کا مجھے افسوس نہیں
دیکھ ظالم نہ بگڑ جائے کہیں گھر تیرا
وہ بھی ہیں لوگ جو ہم بزم رہا کرتے تھے
ہم تو جیتے ہیں فقط نام ہی لے کر تیرا
جلوۂ طور کو کچھ اس کی نظر سے بھانپا
جس نے دیکھا ہے جمال رخ انور تیرا
زندگی اس کی نصیب اس کے ہیں راتیں اس کی
جس کو ہو جلوۂ دیدار میسر تیرا
ہم نے کوشش تو بہت کی تھی اسے لانے کی
اے فروغؔ جگر افگار مقدر تیرا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |