اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
ہم ادھر مجبور ہیں اور وہ ادھر مجبور ہے
شب کو چھپ کر آئیے آنا اگر منظور ہے
آپ کے گھر سے ہمارا گھر ہی کتنی دور ہے
لاکھ منت کی مگر اک بات بھی منہ سے نہ کی
آپ کی تصویر بھی کتنی بڑی مغرور ہے
اس اندھیری رات میں اے شیخ پہچانے گا کون
بند ہے مسجد کا در تو مے کدہ کیا دور ہے
ایک رشک غیر کا صدمہ تو اٹھ سکتا نہیں
اور جو فرمائیے سب کچھ ہمیں منظور ہے
مر گیا دشمن تو اس کا سوگ تم کو کیا ضرور
کون سی یہ رسم ہے یہ کون سا دستور ہے
زاہد اس امید پر ملنا حسینوں سے نہ چھوڑ
خلد میں نادان تیرے ہی لیے کیا حور ہے
حشر کے دن کیا کہیں گے یہ اگر آیا خیال
شکوہ کرنا یار کا پاس وفا سے دور ہے
کچھ حفیظؔ ایسا نہیں جس سے کہ تم واقف نہ ہو
آدمی وہ تو بہت معروف ہے مشہور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |