اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے روبرو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا چاہا ادھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |