اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا

اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
by نظیر اکبر آبادی
315846اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیانظیر اکبر آبادی

اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا

پھر کے نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے روبرو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا

میرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا میں نے اسے ہنسا دیا

میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا ادھر گھٹا دیا چاہا ادھر بڑھا دیا

تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.